ضلع چکوال میں علاقہ ونہار کو ایک خاس اہمیت حاصل رہی کیونکہ علاقہ ونہار میں موضع جھامرہ اور بوچھال کلاں ہمیشہ سیاسی حریف اور سیاست کا گڑھ رہا ہیموجع جھامرہ میں اور بوچھال کلاں ایک عرصہ تک سیاسی حریف رہے ہیں یہاں ملک نذر حسین سیاست میں تھے جن کے مد مقابل بوچھال کلاں سے سیٹھ عباس خان رہے ہیں ملک نذر حسیں اسمبلی کے ممبر بھی بنے جس کے بعد ملک سیٹھ عباس خان بھی اسمبلی کے ممبر بنے مگر ان دونوں گاوں میں مقابلہ ایک عرصہ تک جاری رہا بھر جب ملک صادق حسین پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے تو ملک شہباز خان بھی سیاست میں قدم رکھ چکے تھے۔
ہر حال میں ان کا مقابلہ بھی رہا پھر ملک صادق حسیں کے انتقال کے بعد میدان صاف ہو گیا اور ملک شہباز خان علاقہ ونہار کی سیاست کے بے تاج بن گئیوہ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن کی نشتوں پر کامیابی سے ہمکنار ہوئے پھر اچانک ملک منصور نورپور بھی سیاست کے میدان میں آگئے اور ایک عرصہ تک نور پور بمقابلہ نور پور چلتا رہا مزے کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں جب دونوں مدمقابل رہے کامیابی کسی کا بھی مقدر نہ بن سکی ملک شہباز خان جب پیپلز پارٹی کا الیکشن لڑ رہے تھے۔
دوران الیکشن ہی حرکت قلب بند ہو جانے سے ان کا انتقال ہو گیا ملک شہباز خان وہ شخصیت تھے جن کا شزمار پائے کے سیاست دانوں میں ہوتا تھا انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اپنے حللقے میں لا محدود کام کرائے جن میں سکولز، سڑکیں ۔ ہسپتال اور ترقیاتی کام جن کا شمار بھی مشکل تھا کرائے مگر جنرل مجید ملک سے اختلاف کی وجہ سے انہیں مسلم لیگ ن چھوڑنا پڑی تھی ان کے انتقال کے بعد ان کے چھوٹے صاحبزادے ملک اختر حسین کو سیاست میں اتارا گیا۔
جنہوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد اپنا پہلا ضمنی نالیکشن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑا ملک راجہ عظمت حیات سے شکست کھا گئے قارئین میں یہاں اس بات کا زکر کرتا چلوں کہ ہمارا یہ حلقہ پی پی 21جو کھبی حلقہ PP17بھی رہا ہے ہمیشہ مسلم لیگ ن کا گڑھ ہونے کی وجہ سے اس حلقہ سے کوئی بھی دوسرا امیدوار کامیاب نہیں ہوا ملک اختر حسین نے اپنا دوسرا الیکشن ممبر ضلع کونسل لڑا اور کامیاب ہو گئے مگر جب اپنا تیسرا الیکشن ناظم یونین کونسل بوچھال کلاں لڑا تو ان کے خاندانی حریف جھامرہ سے ملک اشرف زکی میدان میں آئے اس مرتبہ دونوں پارٹیوں کے ووٹ برابر ہو جانے پر ٹاس پر فیصلہ ہوا تو کامیابی ملک اشرف زکی کے حصے میں آگئیجب ناظم یونین کونسل کے اگلے الیکشن ہوئے تو ملک اختر کامیاب ہو گئے۔
ملک اختر شہباز کے نام سے سیاست میں قدم جمانے کی بھر پور کوشش کی مگر قسمت کی دیوی ان پر مہربان نہ ہو سکی اور ہمیشہ غلط فیصلوں کی وجہ سے وہ سیاسی اکھاڑوں میں اپنے قدم نہ جما سکے کبھی پیپلز پاڑی اور کبھی مسلم لیگ اور کبھی تحریک انصاف مگر کئیں بھی وہ اپنا مقام نہ بنا سکے حالانکہ ملک اختر شہباز ایک اچھے انسان ہیں اور انہوں نے اپنا دوستوں کا ایک خاص حلقہ بھی قائم رکھا ہوا ہے۔
Politics
کافی عرصہ سے ان کا الحاق سرداران چکوال سے ہے اب نہ سردار ہی کسی پارٹی میں شامل ہو سکے اور نہ ہی ملک اختر مشرف دور میں جب کامیابی ان کے قدموں میں تھی گریجویشن کی شرط سامنے آگئی اس موقع پر ملک اختر شہباز اگر اپنی اہلیہ کو میدان میں اتار دیتے تو آج ان کا طوطی بول رہا ہوتا مگر ان سے فیصلہ نہ ہو سکا اور ملک اسلم سیتھینے موقع کو غنیمت سمجھتے نہوئے جو پتا کھیلے اور اپنے بیٹے ملک تنویر اسلم کو میدان میں اتارا ان کی کامیابی میں ملک اختر شہباز نے اہم کردار ادا کیا جہاں ان کی کامیابی ہوئی وہاں ملک اختر شہباز کی سیاست بھی دیوار کے ساتھ جا لگی ملک تنویر اسلم نے اپنا دوسرا الیکشن مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر لڑا اور کامیاب ہوئے انہوں نے اپنے دور اقتدار میں جہاں عوام کے دلوں پر حکمرانی کی وہاں میاں برادران کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لیجب ملک تنویر اسلم اپنا تیسرا الیکشن لڑ رہے تھے۔
تو ان کے مقابلے میں ملک اختر شہباز بھی میدان میں آئے ان کا پینل سردار غلام عباس کے ساتھ تھا مگر مسلم لیگ ن کے امیدوار مضبوظ نکلے ان الیکشن میں ایک نعرہ یہ بھی چلا کہ سیتھی بمقابلہ بوچھال بوچھال کلاں میں جو دلچسپ الیکشن ہوا اس میں ملک تنویر اسلم کے جانثار زندگی موت کا مسلہ بنا لیا ان کے اس الیکشن میں ملک اشتیاق حسین کا زکر اس لئے بھی ضرور یسمجھتا ہوں کیونکہ ان کا پولنگ بوتھ ملک اختر شہباز کے گھر کے بلکل سامنے تھا اور انہوں نے اپنے پولنگ بوتھ پت نمایاں کامیابی بھی ہوئی سابق چہرمیں ملک ربنواز ریاض احمد ملک ملک شبیر اعوان حاجی ملک عدالت خان کی ٹیمیں بھی ان کے جانثاروں میں شامل تھیں۔
ان کے سابقہ ادوار میں چوریاں کھانے والے مجنوں یا تو ان کے حریف بنے یا پھر کوئی خاص نتیجہ نہ دے سکے مگر ملک اسلم سیتھی نے پورے حلقہ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر ثابت کر دیا کہ وہ ناقابل شکست امیدوار ہیں اب بھی ان کے حلقہ میں ان کے حریف بھی اقار کرتے ہیں کہ ملک تنویر اسلم کو شکست دینا ایک معجزہ ہی ہو سکتا ہے اب جب مسلم لیگ ن پر ایک خاص دباو ہے ان کے خلاف دو جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں تو کافی لوگوں میں گمان پیدا ہوا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت بس گئی ان کے قریبی دوست اساتذہ کی ٹیمیں جو ان سے ہر قسم کی مرعات لیں ان کے خلاف بولتے نظر آئے کسی نے ان کی کامیابی دھاندلی کے بدولت قرار دی اور بتایا کہ وہ خود ڈیوٹیوں پر تھے۔
انہوں نے ہی ان کی کامیابی میں کردار ادا کیا مگر ملک تنویر اسلم نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا یہ بات اب ملک تنویر اسلم جو اس وقت چار وزارتوں کا قلمدان سمبھالے ہوئے ہیں ان کے لئے لمحہ نفکریہ ہے گو آپ جب یہ الفاظ پڑھ رہے ہونگے تو یہ دھرنے ختم ہو چکے ہونگے اور مسلم لیگ ن کی حکومت ایک بار پھر باپنا کام کر رہی ہو گی۔
Riaz Malik
تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں 03348732994 malikriaz57@gmail.com