حیدرآباد اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ کالم نگار قابل قدر الطاف حسن قریشی جیسے لوگ اس پاک سر زمین پر موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی عمر دراز کرے تاکہ ہم ان کے شعور کی شمع کو روشن کرتے چلیں الطاف حسن قریشی جن کو میں ایک عرصے سے صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور ان کے خیالات افکار سوچ حقیقت پسندی حقیقی شعور و بیداری پر مبنی کالم پڑھتے چلے آرہے ہیں۔
اور حالات پر انکی گہری نظر ہمیشہ رہتی ہیں اس طرح موجودہ حالات پر انھوں نے جو اپنے کالم میںخیالات کا اظہار کیا جس کا حوالہ میں میں اپنی تحریر میں عکس کروں گا اس سے قبل میں ان لوگوں کا بھی ذکر کوں گا جنہوں نے مجھے عزت بخشی اور انکی یادیں میرے لئے ایک درخشاں باب کی طرح آج بھی ترو تازہ ہیں جنہیں میں نظر انداز کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا معروف شاعر قابل احترام رئیس امروہی قدر ت نے انہیں جو خوبصورت سبز بھری آنکھیں دیں جن کو ہم دیکھ کر انکی آنکھوں میںگم ہوجاتے وہ ہمیں دیکھ سکتے تھے مگر ہم صرف ایک بار دیکھنے کی جرات اس وقت کی جب ان سے ایک عرصے قبل مختصر ملاقات میں انکی آنکھ کا نظارہ کر سکے اور حال احوال جان سکے بس اتنی سی ملاقات نے معتر کیا ہواہے۔
یوں تو انکے روز نامہ جنگ میں انکے شعوری فکری انقلابی خیالات سے مستفید ہوتے رہتے تھے ملنے کا اشتیاق تھا تو قدرت نے ان بزرگ رہنما سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہو ا یہ میرے لئے اعزاز ہے انتہائی متاثر کن انسان تھے لیکن بدقسمتی ہم انکی قدر نہیں کرسکے لیکن میرے نزدیک انکے خیالات وہ ملاقات آج بھی قدر کی نگھاں سے دل میں گھر کئے ہوئے ہے اللہ تعالی تعالی رئیس احمدامروہی مرحوم درجات بلند کرے معروف شاعر انور شعور سے بھی چند لمحے کے لئے ملاقات ہو سکی روزنامہ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمن مرحوم سے تو ملاقات نہ ہو سکی لیکن انکی صحافی خدمات ہمارے لئے سرمایہ فخر ہے اور انہوںنے اپنی سوچ سے ایک ایسا ادارہ ہمیں فراہم کیا جس سے ہم اپنی آواز دنیا کے کونے کونے تک نیوز کی حیشیت سے پہنچاسکتے ہیں اور پہنچا رہے ہیں۔
ہاں البتہ انکے فرزند میر جاوید الر حمن سے ٨٧ْیا ٨٨ میں ایک ملاقات انکے دفتر میں ہویی تھی جوکہ ایک یاد گار ملاقات تھی میر جاوید الرھمن نے ہمارا انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا اور ہمیں عزت بخشی یہ وہ ملاقات آج تک یاد ہے اور انہوں نے احترام کے ساتھ رخصت کیا یہ ان کا بڑا پن تھا اللہ تعالیٰ انکو صحت یابی وکامرانی سے ہمکنار کرے ان رہنماوں کا ذکر کرنا دل کو تسکین ملتی ہے اور جذبہ گرماجاتا ہے میں ذکر کر رہا تھا کالم نگار الطاف حسن قریشی نے ہمیشہ اپنے کالم میں ایسے الفاظ حالت کی عکاسی کرتے ادا کئے جس سے ہمارے اندر مزید استحکام پیدا ہوتا ہے اور انکے خیالات کی روشنی میں ہمارے اندر ایک جزبہ بیدار ہوجاتا ہے اور ہم گہرائی میں چلے جاتے ہیں انکی حقیقت پسند اسلام اور ملک پاکستان سے محبت ایک صاف شفاف آئینہ کے مانند ہے جب چاہیں حقیقت کو تلاش کرسکتے ہیں۔
موجودہ صورت حال پر انکا ایک کالم روزنامہ جنگ بتاریخ ٢٩ اگست ْ ٢٠١٤کی اشاعت میں شائع ہوا جسے میں نے اپنی تحریر میں عکس کیا ہے جو اس طرح ہے الطافحسن قریشی لکھتے ہیں کہ ایک بچی جس کی عمر بمشکل ٨ ماہ بتائی گئی ہے وہ بچی اپنی ماں کی گود میں سے کہا کہ اللہ تعالی مجھے عقل دے اس بچی کی زبان کے الفاظ الطاف حسن قریشی کو اتنے اچھے لگے اور انکے اندر تحلیل ہوتے چلے گئے اور انہیں اسلام آباد دھرنے دینے والوں کا خیال آیا اور کہ انہیں بھی اپنے رب سے دعا مانگنی چاہیے انکا کہنا ہے کہ اصل شرف عقل کی دولت اور اس کا صیح استعمال ہے انہوں نے مزید لکھا کہ دو ہفتون سے جو طوفان پپا ہے۔
Shahbaz Sharif
عورتیں بچے اور جوان جس عذاب سے گزر رہے ہیں اور چھوٹے طبقوں کے کاروبار زندگی جس طرح مفلوج ہوتے جارہے ہیں اور فضا میں فتح یا شہادت کے جو نعرے سنائی دے رہے ہیں ان کے پیچھے عمل کے بجائے انا کی جہالت کار فرما نظر آتی ہے الطاف حسن قریشی دھرنا قائدین سے کہتے ہیں کہ غالب گمان ہے کہ بدبختی کا نزول ہو چکا ہے انہوں نے سانحہ اڈل ٹاون کے متعلق لکھا کہ جو ارتعاش پیدا ہوا وہ قبل فہم ہے جس نے انسانی ضمیر کو جھنجوڑ ڈالاہے اور وزیر اعلی پنجاب کی چار روز تک خاموشی نے جلتی پر تیل کا کام کیا مگر طاہر قادری نے جس طرح اسے تلاطم شام وسحر میں ڈھال دیا وہ کسی اور طرف اشارہ کرتا ہے سمجھدار لوگ آگ بجھاتے اور عفوو در گزر سے کام لیتے ہیں اور ظلم و جبر کا مقابلہ دانائی اور دور بینی سے کرتے ہین جبکہ قادری نے آتش انتقام کو ہوا دیتے اور اپنے فدائین کو قتل پر اکساتے چلے آرہے ہیں انہوں نے قادری کے حولے سے کہا کے اور قادری فرماتے ہیں کہ ہم سے جو لوگ انقلاب مارچ سے اجازت کے بغیر لوت آئیں انہیں موت کے گھاٹ اتار دو کہ انہن نے مشن سے غداری کی ہے۔
طاہر قادری نے نے دسمبر ٢٠١٢ میں بھی اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اور حکومت اور اسمبلیاں تورنے کے حکم جاری کئے تھے دسمبر کی شدید سردی میں ان کے پیرو کار جن میں بچے اور خواتین بڑی تعداد میں تھے کھلے آسمان تلے چار دن تک بیھٹے رہے جبکہ شیخ الاسلام آرام دہ کینٹنر میں سے ہدایت جاری کرتے رہے آخر کار انہوں نے حکومت کے نمائندوں سے مزاکرات کئے اور نیل ومرام واپس چلے گئ اس بار وہ انقلاب لانے کا عزم لے کر آئے ہیں اور دس ایسے مطالبے پیش کئے جو لوگوں کی دل آواز ہیں تمام اصلاحی طاقتیں گزشتہ عشرون سے معاشرے اور حکومت میں یہی تبدیلیاں لانے کے لئے کرتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ انقلاب ایک دن میں آسکتا ہے کیا ہم نے انقلاب کے لئے اس کے لئے زمین تیار کرنے کی ضرورت نہیں کیا ایک مضبوط لیڈر تیار کئے بغیر انقلاب آسکتا ہے جو کئی شکل میں انقلاب کی امنگ اور اسکی حفاظت کی صلاحیت پیدا کرسکیں کیا ہمارا مذہبی جماعتوں کے لاکھوں کی تعداد میں ایسے تاجر صنعت کار اور کاروباری لوگ تیار کرلئے ہیں۔
جن کے معاملات اخلاق دیانت اور امانت رکھنے پر پورے اترتے ہوں کیا ایسے سرکاری اعمال دستیاب کی پاسداری اوصاف موجود ہیں ظاہر ان تمام سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دیا جاسکتا تو پھر علامہ طاہر قادری کس انقلاب کی بات کر رہے ہیں اطاف حسن قریشی نے اپنے کالم میں کہا کہ علامہ طاہر کو مخاطب ہو کر کہا کہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ سرور کونین حضرت محمد ۖ نے اسلامی انقلاب کے لئے ٢٣ برسوں تک لوگوں کے ذہنوں کی آبیاری کی تھی اور اپنے اسوء حسنہ سے قلوب واذہان مسخر کئے تھے ان کی صداقت اور امانت کی اہل مکہ گواہی دیتے تھے انہوں نے انقلاب اخلاق وکردار کی مستحکم بنیادوں پر برپا کیا تھا جبکہ پم لوگ اسلامی انقلاب کی بات کرتے ہیں لیکن ہماری زندگی روحانی اور اخلاقی عظمت سے خالی ہیں مصلحتا ہم جھوٹ بول لیتے ہیں ابول لیتے ہیں اور دھوکہ سازی کو جنگ کا ایک موثر جرم خیال کرتے ہیں۔
ہم تھوتھے چنے کی مانند پہیں جو بججتا بہت ہے ہم وحشیوں کی طرح دھاڑے اور بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں ایسے میں انقلاب کیسے آئے گا قادری ہزاروں لوگوں کو سراب میں لے آئے ایک ایسا سراب جس مین ذاتی خواہشات کے بگولے اٹھ رہے ہیں وہ نواز شریف شہباز شریف کو سولی پر چڑھانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کھبی ان کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا تھا ۔ حضرت علی کا قول یہ ہر عہد میں ایک زریں اصول کی حیشت رکھتا ہے کہ جس شخص پر احسان کیا جائے اس کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ضروری ہے شر کئی طرح کا ہو تا ہے الطاف حسن قریشی نے لکھا کہ میری نظر میں ہجوم کی طاقت کے آگے وزیر اعظم نواز شریف پوری استقامت کے ساتھ ڈٹا رہنا چاہئے یہ ان کے اقتدار کا مسلہ نہیں بلکہ پاکستان میں عوام کی طاقت سے حکومت کی حفاظت کا معاملہ ہے۔
عدالت عظمی وکلا دانش وسول سوسائٹی کے تمام فعال عناصر اورسیاسی اور دینی زعما ایک ہی بات کہ رہے ہیں کہ ایک ہجوم کے دبائو کے تحت وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کی ریت پڑگئی تو آئندہ کوئی مستقل حکومت قائم نہیں ہوسکتی وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں ایک بڑی متوازن رقریر بڑے اعتماد کے ساتھ کی ہے اور وہ خوش نصیب ہیں کہ انہیں پارلیمان اور وفاق کی تمام اکائیوں کی حمایت حصل ہے اس پر انہین اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور عوام کابھی شکریہ انکسار کے ساتھ ادا کرنا چاہیے اللہ عزوانکسار پسند ہے۔
انہیں اپنی پالیسوں پر بھی نظر ثانی کرنی ہے اور عوام کو با اختیار بنانا ہوگا اور عظیم اہداب کے سر گرم رہیں گے طوفان گزر جائے گا۔۔۔ عمران خان کے لئے لکھتے ہیں وہ سیاست میں اترتے ہی سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں انہیں ہوس اقتدار نے بد حواس کردیا ہے وہ جب فوجی انقلاب کے بعد جنرل پرویز مشرف کی آغوش میں جا بیٹھے تو انہوں نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ میں وزیر اعظم بننے والا ہوں ٢٠١٣ کے انتخابات سے پہلے لندن گئے تو اپنے بیٹوں سے کہہ کر آئے تھے کہ تم اب پاکستان میں مجھے وزیر اعظم ہاوس میں ملاقات کرو گے انتخابات میں ان کا خواب پورا نہیں ہو ا اور اس لئے وہ انتخابات کو ثبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم کے استعفیٰ پر اصرار کر رہے ہیں انہیں پھر نھنی بچی والی دعا مانگنی چاہیے کہ اللہ مجھے عقل دے ہم نے اقتدار کے حریص کو نا مراد اور ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ فوج اور عدالت عظمیٰ اس انداز سے مداخلت کرے گی کہ بحران کا ایک اطمینان بخش حل نکل آئے گا۔۔۔