برلن بیورو کے مطابق پیپلز پارٹی جرمنی کے سینئر کارکن و رہنما قیصر ملک ملکی حالات پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔پاکستان کی صحافت پر ان کا تازہ تبصرہ اپنا انٹرنیشنل کی وساطت سے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے: پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے۔پوری دنیا میں رہنے والے پاکستانی ان دنوںاپنے وطن کی حالت پر دن رات ایک ہیجان میں مبتلا ہیں،چوبیس گھنٹے پاکستانی ٹی وی اوسان خطا کر دینے والے پروگرام پیش کر رہے ہیں۔
تقریبا ایک ماہ ہونے کو ہے لانگ مارچ،آزادی مارچ کا چرچا ہے۔ہر کو ئی سب کچھ ملیا میٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ٹی وی پروگراموں میں مقابلہ شروع ہے،کون زیادہ سنسنی پھیلا سکتا ہے؟ کون زیادہ عوام میں اشتعال پھیلا سکتا ہے؟ کون دور کی کوڑی لا سکتا ہے؟کون زیادہ باخبر ہے؟کس کو زیادہ اندر کی خبر ہے؟
ایک چینل تو ایسا ہے جو صرف مال بنانے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے؟صرف یہ ہی نہیںاب تو اور بھی بہت کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے، پہلے جو باتیں کتا بوں میں پڑھا کرتے تھے اب ٹی وی پر نظر کے سامنے دہرائی جا رہی ہیں ۔ٹی وی پروگرام دیکھنے والوں کو جو کچھ معلومات کسی کتاب یا کسی اور طرح سے حاصل کرنی پڑتی تھیں، آجکل ٹی وی کے سامنے اسکا ذخیرہ مل رہا ہے۔
آج کل گھر بیٹھے آپ کو ہر کسی کا چہرہ صاف نظر آرہا اور ہر صحافی کی اندر کی کہانی بھی پتہ چل رہی ہے ۔پہلے تو کسی صحافی پر لفافہ کا لیبل لگاتے ہوئے بھی آدمی ہزار مرتبہ سوچتا تھا مگراب تو کسی پر الزام لگانے کی ضرورت ہی نہیں، اب تو روزانہ ہمارے صحافی مہربان ایک دوسرے سے بازی لے جانے پر اپنے ساتھیوںکی اصلیت عوام کے سامنے لا رہے ہیں ۔ صحافی برادری میں جو لوگ جنرل ضیاء سے لے کر آج تک گاڑی میں تیل کی طرح لفافہ سے چل رہے رہے تھے، وہ بے نقاب ہورہے ہیں۔ وہ جج بھی بے نقاب ہورہے ہیں جو بریف کیس یا لفافہ پر چلتے تھے۔وہ پولیس والے بھی بے نقاب ہورہے ہیں جو پاکستانی ریاست کی نہیں بلکہ کچھ لوگوں کی ذاتی نوکری کر رہے ہیں۔
آج پاکستان کے ہر شہری کو شکر گذار ہونا چاہئے پاکستان عوامی تحریک کا،جس نے انقلاب مارچ اور تحریک انصاف کا، جس نے آزادی مارچ شروع کرکے پاکستان کی صحافت کو اجاگر کردیا۔آج وہ تما م صحافی، جن پر لفافہ صحا فت کا لیبل لگا ہوا تھا ،جواس پر برا مناتے تھے اور دوسروں پر الزام لگایا کرتے تھے ،آج وہ سب جن پر کبھی صرف الزام تھا ،انہوں نے خود ہی ثابت کر دیا کہ ان کو دیا جانے والا لقب سچ تھا، آج صبح سے شام تک مختلف ٹی پروگراموں میں ان کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے وہ سب اپنا کھایا ہوا نمک جو ان کو لفافہ کی صورت میں جنر ل ضیاء اور اسکی باقیات سے آج تک ملتا رہا ہے اسکو حلال کرنے پر اپنی تمام توانائیاں صرف کررہے ہیں ۔وہ سفید کو ہمیشہ سیاہ کرکے دکھاتے تھے۔
وہ ہی کام وہ آجکل کررہے ہیں، تخت لاہور کے لفافوں پر چلنے والی صحافی برداری کے لئے آجکل بہت سی مشکلات ہیں؟ ابھی کل کی بات ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے دوتین مرتبہ ملاقات میں ہمارے وزیراعظم صاحب نے ذمہ داری سونپی کہ دونوں مارچ والوں سے رابطہ کرکے ہماری کوئی مدد کریں؟ جب ہمارے آرمی چیف نے ان سے ملاقات کی تو عوام میں اس کا تاثر غلط ہوا۔ یہ دیکھ کر تخت لاہور کے بڑے شہزادے (وزیراعظم میاں نواز شریف) نے پارلیمنٹ میں یہ بیان داغ دیا کہ آرمی چیف کو ہم نے نہیں بلکہ دھرنے والوں نے خود کہا تھا کہ ہمیں وقت چاہیئے۔
اسکے بعد کی صورتحال پر آرمی کی طرف سے بیان آگیا کہ ہمیں حکومت نے خود کہا تھا۔اس پر رات ٹی وی ٹاک شو زکے مختلف پروگراموں میں ان لفافہ صحافیوں کی حالت دیکھنے والی تھی۔ وہ جس طرح تخت لاہور والوںکا کھایا ہوا نمک حلال کر رہے تھے اس پران کو داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ ایک صاحب تو ایسے جغادری صحافی ہیں،جوتخت لاہور کے خلاف بات سن کر لال پیلے ہو جاتے ہیں اور ان کے منہ سے جھاگ جاری ہو جاتی ہے ؟ وہ اس واقعہ کو بھی اسطرح پیش کررہے تھے جیسے تخت لاہور والے اسمیں گنہگار نہیں بلکہ آرمی چیف ریاست پاکستان کا نہیں بلکہ تخت لاہور کا نوکر ہے اس کو جو بھی وہ کہیں اسکو من وعن ماننا چاہئے ؟
پاکستان میں صحافت، جس کو پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف لفافہ کے ذریعہ پرورش کرکے جوان کیا گیا، آج ان سب کے امتحان کا وقت ہے اور وہ دن رات اپنے شہنشاہوں کی شاہی قائم رکھنے میں سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ان میں کئی ایسے بھی ہیں، جن کا ذکر ہمارے سابق آئی جی سردارمحمد چوہدری(مرحوم) نے اپنی کتاب جہان حیرت میں کیا ہوا ہے(بی بی شہید کی حکومت کے خلاف افوہوں کاایک سیل اقبال ٹکا کے گھربنایا گیا تھا ،جس کے سردارمحمد چوہدری خود انچارج تھے )۔ اسکے بعد ایک اور جگہ ایک اور صاحب اپنی کتاب میں ایک واقعہ آصف علی زرداری صاحب کے متعلق لکھتے ہیں ،جس کو ٹین پرسنٹ کا نام دیا گیاتھا،کہ ایک صبح ہمیںایک لیڈرکے گھر ناشتہ پر بلایا گیا۔
Journalism
جس میں ہم سات صحافی شامل تھے،سری پائے کا ناشتہ تھا ۔ ہمارے لیڈر عمرہ ادا کرکے واپس تشریف لائے تھے۔ ناشتے پر لیڈر صاحب نے اپنے نوکر پھجے کو کہا کہ وہ تحفے لائو؟تو وہ کھجوریں اور تسبیحاں لے آیا، جس پر وہ ناراض ہو ئے اور کہا کہ تو پھجا ہی رہے گا دوسرے تحفے لائو؟ وہ سات خاکی رنگ کے لفافے لایا، جو ہمیں ایک ایک دیا گیا اور کہا گیا کہ بس یہ جو دس پرسنٹ (زرداری )کا معاملہ ہے اسکو ہائی لائٹ کرنا ہے ،۔وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے کچھ دن اس پر توجہ نہیں کی تو پھر فون آیا کہ اگر یہ کم تھا تو اور خدمت کردیتے ہیں،تو پھر دوبارہ لفافہ آیا اور ہم نے دس پرسنٹ والا معاملہ ہائی لائٹ کیا۔آج ان تمام لفافہ برانڈ صحافیوں کی حالت دیکھنے والی ہے۔ ان کو ٹی وی پر لوگ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں جو سفید کو اب بھی سیاہ کرکے پیش کررہے ہیں اور تخت لاہور کی شہنشاہیت کو بچانے کے لئے اپنی تمام توانائیاں صرف کرہے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ وہ اس امتحان میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اور تخت لاہو ر سے کھائے ہوئے نمک کو وہ کہاں تک حلال کرکے دکھاتے ہیں،یہ تمام لوگ آجکل عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف میدان میں اترے ہوئے ہیں ۔آج رات جو واقعہ پاکستان کے ٹی وی پروگرام نشر کر رہے ہیں اور اسلام آ باد کا جو نقشہ بنا ہوا ہے، جس طرح پاکستان کے عوام پر ریاستی دہشت گردی کی جارہی ہے، جس میں چار سو سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں اور سات جاںبحق ہوئے ہیں، جو ٹی وی کی رپورٹ ہے ، پاکستان کی تاریخ میں ایسا تشددصرف ضیاء ڈکٹیٹر کے زمانہ میں ہواتھا۔ یہ بھی کیونکہ اسکی باقیات ہیں، اسلئے انہوں نے بھی وہ تاریخ دوبارہ تازہ کر دی ہے۔ اس تشددکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
مگرا ب یہ دیکھنے والی بات ہے ،کہ یہ لفافہ صحافی اس اسلام باد کے واقعہ کوتخت لاہور کے کھاتہ میں ڈالتے ہیں یا طاہرالقادری اور عمران خان کے کھاتہ میں ؟ اب یہ لوگ اپنے اس امتحان میں کس حد تک پاس ہوتے ہیں اور اپنی ساکھ کو لاہوری شہنشاہوں کی نظر میں بحال رکھنے کے لئے کون سا ہتھیار استعمال کرتے ہیںاورپاکستانی غریب عوام کو اور کتنی دیر تخت لاہور کی باد شاہی میں محصور رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا؟؟؟