اسرائیل ,امریکا اور عالمی طاقتوں کی سر پرستی میں غزہ فلسطین پر وحشت ناک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ ایک بار پھر ملبے کا ڈھیر بنا۔ غزہ میں سات ہفتوں تک حماس کی مزاحمتی صلاحیت کو ختم کرنے کے نام پر اسرائیلی فوج کی بلا امتیاز فضائی بمباری اورزمینی کاروائی کے بعد جس کے نتیجے میں عورتوں اور بچوں سمیت 2143 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے۔ جس کے بعد اب دونوں فریقین کے مابین مصر کی ثالثی میں طویل المدتی جنگ بندی پر اتفاق ہو چکا ہے۔ دنیا گزشتہ شب و روز اس قتل عام کا کھلے عام تماشا دیکھ رہی تھی۔
افسوس! امریکا نواز مسلم حکمراں اپنی مجرمانہ خاموشی کے ذریعہ اِس ریاستی دہشت گردی میں کھل کر شریک رہے……. لیکن حماس کی قیادت میں غزہ کے عظیم مسلمانوں کی لازوال قربانیوں، عزم و ہمت اور بے مثال استقامت کو پوری امت مسلمہ کا سلام ہے۔
عرب ٹی وی کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی میں نرمی اور غزہ کی پٹی میں ماہی گیری پر عائد پابندی کے خاتمے کے حوالے سے حماس کی شرائظ تسلیم کرلی ہیں، جبکہ غزہ میں بندرگاہ اور ہوائی اڈے کی تعمیر پر فریقین کے درمیان ایک ماہ بعد بالواسطہ مذاکرات کی بحالی کے بعد بات چیت کا آغاز ہوگا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ غزہ کے باشندوں نے شہر کی مکمل ناکہ بندی، کسی بیرونی امداد کے حصول کے تمام راستے بند ہونے، عالمی برادری، اقوام متحدہ اور مسلم ممالک کی قیادتوں کی بے اعتنائی کے باوجود جس عزم و حوصلے سے اسرائیلی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اس کی بناء پر اسرائیلی حکمراں حماس کی بنیادی شرائط ماننے پر مجبور ہوئے، قوموں کی تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال مشکل سے ہی ملے گی۔
یہودیوں کے پس منظر میں یہ بھی شامل ہے کہ مختلف ادوار میں یہودیوں کو، بخت نصر، ہٹلر و دیگر نے ان کی انہیں حرکتوں کی بدولت قتل عام کر کے یہ پیغام نوٹ کرایا تھا کہ یہودی قوم جہاں بھی ہوگی فساد اور ظلم ہی پھیلائے گی۔ شاید وہیں فساد اور ظلم آج معصوم فلسطینی شہریوں پر کیا جارہا ہے۔ چند ہی روز میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پورے شہر کو ملبے کا ڈھیر بنادیا گیا اور مرد و خواتین ، بوڑھے اور بچوں سمیت ہزاروں شہری شہید اور زخمی کردیے گئے۔ بیشتر بچے بم دھماکوں کی آوازیں سن سن کر ذہنی توازن کھو بیٹھے۔
اسرائیل اور غزہ کے مابین گزشتہ روز جاری کشیدگی کوئی نئی بات نہیں تھی اسرائیل غزہ پٹی پر مسلمانوں کی نسل کشی کرنے اور مکمل قبضہ حاصل کرنے کے لیے حماس پر کوئی بھی جھوٹا الزام لگانا اور اُس کا بدلہ لینے کے لیے معصوم لوگوں کے قتل و عام کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے،جیسا کہ ابھی انھوں نے تین یہودیوں کے قتل کا ڈرامہ خود رچایا تھالیکن اللہ تعالیٰ ہمیشہ مظلوم قوم کا ساتھ دیتا ہے حقیقت میں غزہ کے خون نے اسرائیل کو عالمی سطح پر رسوا کیا ہے اور وہ غزہ کے نہتے فلسطینوں اور حماس سے جنگ ہار چکے ہیں۔
اسرائیلی جریدے ٹائمز آف اسرائیل کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس جنگی حکمت عملی بنانے میں ناکام رہیں اور ان کا مرکزی ہدف عوامی مارکیٹیں،گھر،مساجد اور تعلیمی ادارے تھے جہاں اصل ٹارگٹ حماس کے جنگجووٗں کے بجائے عام فلسطینی نشانہ بنے۔واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنا ابھی دور کی بات ہے،فی الحال اسرائیل کے عقابوں کو مصالحت کی ضرورت کو تسلیم کرنا ہوگا۔اسرائیل کے دفاعی تجزیہ نگار کے مطابق ہمیں ایک ماہ کی طویل جنگ کے بعد یہ بات مان لینی چاہیے کہ ہماری فوج حماس کے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتی چونکہ یہ واضح ہے کہ حماس نے اپنے معمولی ہتھیاروں کی مدد سے ہمارے تمام شہروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ہمارے فوجی ،عمارتوں اور شہریوں کو راکٹ کو ذریعے کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔
اس ناجائز وجود اسرائیل کے بارے میں اگر ریسرچ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ا سرائیل کا قیام 14 مئی 1948 کوایک آزاد جمہوری ریاست کے طور پر عمل میں آیا،نئی ریاست کو یہودیت کے ماننے والوں کا وطن قرار دیا گیا۔اقوام متحدہ نے 29 نومبر 1947 کو منظور کی گئی اپنی ایک قرار داد میں فیصلہ کیا کہ فلسطین کی سرزمین کو 3حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ایک حصے پر فلسطینی ریاست اور دوسرے پر یہودی ریاست قائم ہو گی۔تیسرا حصہ یروشلم شہر پر مشتمل ہو گا جس پر اقوام متحدہ کا کنٹرول ہوگا اور ہر ایک کو یروشلم تک رسائی حاصل ہو گا۔
Gaza
اسرائیل کا قیام اس سیاسی اور عملی محاز آرائی کے بعد عمل میں آیا جو اِس کی تشکیل سے قبل تقریبًًا50 برس تک جاری رہی تھی یہ صورتحال 1897 میں صہیونی تحریک کے آغاز کے فوری بعد شروع ہو چکی تھی۔اِس تحریک کا نصب العین ایک ایسی خودمختار یہودی ریاست کا قیام تھا جس میں یہودیوں کو اکثریت حاصل ہو،اِس تحریک نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ یہ نئی ریاست اِس سرزمین پر قائم کی جائے گی جہاں ماضی میں3ہزار سال تک یہودیوں کا مذہبی اور آبائی وطن قائم تھا۔صیہونیت کے اِس دعوے کو عرب ریاستوں اور عوام نے یکسر مسترد کردیا انھوں نے یہودی ریاست کے مطالبے کو ایک ایسی سازش قرار دیا جس کا مقصدڈھٹائی کے ساتھ طاقت کے ذریعے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرنا تھا۔
اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونے کے صرف 24 گھنٹوں کے اندر عرب ریاستوں بشمول مصر، شام اور لبنان نے نئی ریاست کو چیلنج کرنے کے لیے اپنی فوجیں سرحد پر تعینات کردیں۔ یہیں سے اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان اُس طویل محاز آرائی کا سلسلہ شروع ہوگیاجس کے دوران1956، 1967 اور 1973 کی جنگوں کے علاوہ فوجی جھڑپیں بھی ہوئیں۔یہ محاذ آرائی 21 صدی میں بھی جاری ہے،اب بھی فلسطین کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر موجود انتہائی دشوار مسائل میں شامل ہے۔اپنے قیام کے فوری بعد اسرائیل نے فلسطینی عوام پر بے اندازہ مظالم شروع کردئیے جو کہ اب بھی جاری ہیں۔اسرائیل کی اِن کاروائیوں میں فضائی بمباری،ہزاروں عرب شہریوں کو قید میں رکھنا، فلسطینیوں سے زبردستی چھینی گئی بستیں اور علاقوں میں مسلسل اسرائیل کے یہودیوں کی بستیاں تعمیر کرنااور اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جانب سے کسی بھی کاروائی کا بہانہ بنا کر انتہائی وحشیانہ انداز میں میں پوری طاقت کے ساتھ کاروائی کر کے اسے جوابی اقدام قرار دینا شامل ہے جس کی مثال ابھی حال ہی میں متذکرہ جوابی کاروائی شامل ہے۔
1947 میں اقوام متحدہ کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد کے تحت اسرائیل کو فلسطینی سرزمین کا 56 فیصد حصہ الاٹ کردیا گیا تھا لیکن اس کے بعد بھی اسرائیل مزید فلسطینی علاقوں پر بزور طاقت قبضہ جمانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے،ایک اندازے کے مطابق اسرائیل 2009 تک فلسطین کے تقریبًًا 80 فیصد علاقے پر قبضہ کر چکا تھا ۔اسرائیل کو جس طرح اس خطے پر مسلط کیا گیااور اپنے قیام کے بعد وہ جس انداز میں فلسطینیوں کے خلاف مسلسل جارحیت کر رہا ہے وہ بدترین ناانصافی اور انتہائی قابل مذمت ہے۔اِن حقائق کے باوجود اِس بات کو بہر حال تسلیم کرنا ہوگا کہ آج 21صدی میں زمین کے جس حصے پر اسرائیل قائم ہے وہ اب سے تین ہزار سال قبل یہودیت کا مرکز رہی ہے۔
اِس وقت پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد صرف ایک کروڑ 40 لاکھ ہے۔اِن کی نصف تعداد اسرائیل میں آباد ہے۔ جبکہ دیگر ممالک بشمول امریکا،برطانیہ اور یورپی ممالک میں بھی یہودی آباد ہیں،ان میں سے کچھ لوگ دیگر ملکوں میں بھی رہتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔چونکہ یہودہت نے ہزاروں برس قبل زمین کے اس حصے میں جنم لیا جہاں آج اسرائیل قائم ہے اس لئے اس مقام پر اسرائیل کے قیام کو صرف مشروط طور پر ہی قانونی جائز سمجھا جا سکتا ہے۔اسرائیل کے قیام کو صرف اسی صورت میں مکمل جواز مل سکتا ہے جب کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سر زمین پر وہ حقوق دے دئیے جائیں جو بہت عرصہ قبل ان سے چھین لیے گئے تھے۔یہی نہیں بلکہ اسی مقام پر حقیقی معنوں میں ایک ایسی آزاد اور خودمختیار فلسطینی ریاست قائم ہوجائے جو اسرائیل کے دباؤ سے مکمل طور پر آزاد ہو۔
اسرائیل ریاست جس زمین پر قائم کی گئی بے شک اس کا ایک مذہبی اور تاریخی پس منظر ہے اس کے باوجود جس انداز سے یہ علاقہ فلسطینیوں سے چھین کر اسرائیل کو دیا گیا وہ واضح طور پر ڈکیتی کے مترادف ہے۔اسرائیلی میڈیا اس بات کی تصدیق کر چکا ہے کہ اسرائیل کی جنگ ناانصافی اور مسلم دشمنی کی جنگ ہے تو ایسے میں اقوام متحدہ اور دیگر حقوق انسانی کی علم بردار تنظیموں کا کیا کردار ہوگا؟ کیا اب بھی یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ اسرائیل نا صرف فلسطین کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔
Palestine
ایسے میں اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف مسلم امہ کومتحدہ ہونا ہوگا، تاکہ کل روز قیامت فلسطینی مسلمانوں کے روبرو سرخرو ہوسکیں،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں فریقوں کی جانب سے اس معاہدے پر پوری طرح عمل کیا جائے۔امریکی حکومت اور عالمی برادری غزہ کی ناکہ بندی میں نرمی اور اس کی تعمیر نو کے لیے سہولتوں کی فراہمی کی اسرائیلی یقین دہانیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور فلسطین کو مکمل طور پرخودمختار ریاست بنائے جانے کی منزل کی جانب تیزی سے پیش رفت کی جائے تاکہ یہ معاہدہ فی الواقع نتیجہ خیز ثابت ہو اور ماضی کے معاہدوں کی طرف جنگ بندی کا محض ایک اور بے نتیجہ معاہدہ بن کر نہ رہ جائے۔