کہتے ہیں بد ترین جمہوریت بھی اچھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے یہ لکھنے اور کہنے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن عملی طور پہ اگر اس ایک فقرے پہ بغور غورو فکر اور مشاہدہ کیا جائے تو اس ایک فقرے میں سچائی نام کی کوئی چیزنظر نہیں آئیگی ماہ جون میں لاہور کے علاقہ ماڈل ٹائون میں جو سانحہ رونما ہوا اور اس کے بعد اب جو شہر اقتدار میں پولیس کے ہاتھوں ریاستی دہشت گردی کا واقعہ منظر عام پہ آیا کیا اسی کا نام جمہوریت ہے جمہوریت میں تو ہر شہری کو یہ سہولت فراہم کی جاتی ہے کہ وہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے جو چاہے کرے جہاں جمہوریت کا دور دورہ ہوتا ہے وہاں پہ ہر شہری کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہوتا ہے۔
چودہ اگست کو زندہ دلان شہر لاہور سے آزادی اور انقلابی مارچ کا آغاز ہوا انقلاب لانے والوں کا موقف تھا کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں جان بحق ہونے والوں کی ایف آئی آر درج کی جائے اب دیکھیں یہ کیسی جمہوریت ہے اگر جمہوریت والے ملک میں ریاستی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے ورثاء ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہوکر شہر اقتدار میں دھرنا دیں اور بار بار ایف آئی آر درج کرانے کا مطالبہ کریں اور پھر بھی ان کی داد رسی نہ ہوتو کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے اور جو قوتیںحکومت وقت کی کرپشن کو منظر عام پہ لائیں ان کے خلاف چند لمحوں میں ایف آئی آر درج کر دی جائے جواشرافی اپنی ہی رعایا پہ ظلم ڈھائے اور نہایت سخت سیکیورٹی میں رہیں ان کے خلاف آواز اٹھانا دہشت گردی کہلائے اور ان کے خلاف دہشت گردی کی ایف آئی آر بھی درج کر دی جائے کیا اسی کا نام جمہوریت ہے جب حق آواز بلند کی جائے اور ان کی آواز کو دبا دیا جائے اسے جمہوریت کا نام دیا جائے کیا یہ ستم ظریفی نہیں صوبہ پنجاب میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ اب کسی بھی عوامی مقام پر 5 یا 5 سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد ہوگی۔ شہر میں جلسے جلوس یا ریلیاں نکالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میںانقلابی اور آزادی مارچ کے نہتے شرکاء پولیس کی بدترین شیلنگ، لاٹھی چارج اور پتھراؤ سے 4 افراد جاں بحق جبکہ 600سے زائد زخمی ہوئے ہیںجبکہ مزید ہلاکتوںکا خدشہ ہے پاکستان عوامی تحریک اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ احتجاجی مظاہرین کا ایک گروپ پارلیمنٹ کے احاطے میں موجود ہے جنہوں نے پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں خیمے ڈال لئے ہیں اور وہاں موجود سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں، ان لوگوں میں اکثریت خواتین اور چھوٹے بچوں کی ہے۔ شاہراہِ دستور پر پاک سیکریٹریٹ کے سامنے مظاہرین اور پولیس کی جھڑپیں جاری ہیں۔ ڈنڈو ں غلیلوں اور پتھروں سے لیس یہ مظاہرین ریڈ زون کی سیکیورٹی کے لئے لگائے گئے کنٹینرز کے عقب میں چھپے ہیں جو وقفے وقفے سے باہر نکل کر پتھراؤ اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں تاہم پولیس کی جانب سے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی جاتی ہے جبکہ زیادہ قریب آنے پر پر ربڑ کی گولیاں بھی برسائی جاتی ہیں۔
جس کے بعد وہ پھر کنٹینرز کے پیچھے چلے جاتے ہیں مظاہریں نے ردعمل کے طور پہ کنٹینربھی جلا ڈالے۔ پمز میں229اور پولی کلینک میں 251مریض لائے گئے ہیں، زخمی ہونے والوں میں مظاہرین اور پولیس کے علاوہ صحافی، میڈیا کے نمائندوں اور براہ راست کوریج سے منسلک عملے کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ معمولی زخمیوں کو طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے پمز میں زخمی سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد 45 ہے جب کہ 38عورتیں اور 5بچے بھی پمز اسپتال لائے گئے ہیں زیادہ تر مریض آنسو گیس کے اثرات کے آئے ہیں جبکہ کچھ لوگ ہڈیاں ٹوٹنے کی وجہ سے بھی آئے ہیں۔ مظاہرے کے دوران 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جنہیں جنہیں آبپارہ، سیکریٹریٹ،سبزی منڈی اور کوہسار پولیس اسٹیشنز میں رکھا گیا ہے۔
وزیر اعظم ہائوس کی جانب بڑھنے والے لانگ مارچ کے شرکاء کی کوریج کرنے والے نیوز چینلز سوائے پی ٹی وی اور جیونیوز کے سبھی کی صحافی ٹیموں پر پنجاب پولیس نے وحشیانہ تشدد کیا گیا پولیس اہلکاروں نے کئی نیوز چینلز سے تعلق رکھنے والے رپورٹرز، کیمرہ مین اور دیگر عملے پرلاتوں، لاٹھیوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال کیا، کئی کیمرے توڑ دیئے گئے میڈیا کا کام عوام کو اصل حقائق سے باخبر رکھنا ہوتا ہے صحافت کو چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے اور اس ستون پہ گزشتہ روز اسلام آباد میں جس طرح وحشیانہ تشدد ہوا اس کی کہیںمثال نہیں ملتی جبکہ یہ حقائق بھی سامنے آرہے ہیں کہ پولیس کے روپ ”گلو بٹوں ”نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا پولیس کی ریاستی دہشت گردی کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں سراہا گیا۔۔
Democracy
کیونکہ یہی تو جمہوریت ہے حکمرانوں کے نزدیک ،جہاں پنجاب پولیس کا اصل چہرہ سامنے آیا وہاں اس واقعہ سے پاکستان کا امیج بھی خراب ہوا اعلی حکام کو چاہئے کہ اس واقعہ کی تحقیقات کرائیں اور اس واقعہ میں ملوث پس پردہ لوگوں کو بھی بے نقاب کیا جائے آزادی صحافت کی آواز دبانے پہ ملک بھر کی صحافتی تنظیں سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں وفاقی وزیر داخلہ نے صحافیوں پر پولیس تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا ہے، اس کے علاوہ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ جمہوریت اور آزادی صحافت لازم و ملزوم ہیں، حکومت آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتی ہے، صحافیوں پر تشدد کرنے والے جمہوریت اور جمہوری نظام کے خیر خواہ نہیں۔
شہر اقتدار میں سنگین اور کشیدہ صورت حال کے پیش نظرکور کمانڈرز کی ایک ہنگامی کانفرس کی گئی کور کمانڈرز کانفرنس میںموجودہ سیاسی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کو سیاسی طور پر حل کرنے توقع ظاہر کی گئی۔ عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ پاک فوج قومی خواہشات کو پورا کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے گی۔آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں کور کمانڈرز کی ہنگامی کانفرنس ہوئی۔ کانفرنس تین گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک جاری رہی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام سمیت پرنسپل سٹاف کے افسران نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں عسکری قیادت نے موجودہ صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے سیاسی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کیا جبکہ اسلام آباد میں انسانی جانوں کے ضیاع پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق کانفرنس میں عسکری قیادت نے موجودہ بحران کو سیاسی طور پر حل کئے جانے کی توقع ظاہر کرتے ہوئے رائے دی کہ وقت ضائع کئے بغیر مسئلے کو سیاسی طور پر حل کیا جائے جبکہ اس میں مزید کوئی طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔
کور کمانڈرز کا کہنا تھا کہ دھرنے کے شرکاء پر طاقت کا استعمال صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتا ہے لہٰذا مسئلے کے حل کیلئے پْرتشدد ذرائع استعمال نہ کئے جائیں۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ عسکری قیادت نے ملک جمہوریت کی حمایت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج قومی خواہشات کو پورا کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے گی جبکہ پاک فوج ملکی سلامتی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے بھی پْرعزم ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں کشیدہ صورت حال کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف نے ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں اور دھرنے دینے شروع کر دیئے ہیں جس سے سیاسی کشیدگی میں یقینی طور پہ اضافے کا خدشہ ہے ایسے گھمبیر حالات میں ملک کی بڑی سیاسی قوت پاکستان پیپلز پارٹی کو فرینڈلی اپوزیشن کی بجائے حقیقی اپوزیشن کا رول نبھانا چاہئے حکومت کی حمایت کی بجائے وطن عزیز کی اس عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے جنہیں ریاستی دہشت گردی کانشانہ بنایاگیا حکومت وقت کو عسکری قیادت نے ایک بار پھر سیاسی کشیدگی کو احسن ، خوش اسلوبی اور عمدہ سیاسی حکمت عملی سے حل کرنے کا موقع فراہم کیاہے حکومت وقت کو نازک حالات کا ادراک کرتے ہوئے معاملات کو الجھانے کی بجائے سلجھانے کی پالیسی پہ عمل کرنا ہوگا پولیس گردی کوسراہنا اور اپنے مخالفین پہ دہشتگردی کے پرچے کٹوانے حکومت کو زیب نہیں دیتا ایسی جوابی کاروائیوں سے سیاسی کشیدگی میں اضافے کاخدشہ ہے جو وطن عزیز کے لئے کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں ہے۔