ستمبر کا آغاز ہو چکا۔ابھی ستمبر 1965 ء کی جنگ کے نقش دل سے مٹے نہیں ہیں۔جب بھارت نے اپنے ناپاک ارادوں سے پاک وطن پاکستان پر آدھی رات کو حملہ کر دیا تھا۔لیکن پاکستانی قوم اور بہادر نوجوانوں نے ان کا منہ توڑ جواب دیا۔دشمن کے منصوبے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔بھارت شکست سے دوچار ہوا۔اب کی بار دشمن پھر نظریں جمائے ہوئے ہے۔آئے روز سیالکوٹ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں کرکے پاکستانی شہریوں کو شہید کر رہا ہے۔پاکستان مسائل کا حل ڈائیلاگ سے چاہتا ہے لیکن بھارت ہمشیہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ہر آنے والی حکومت پاکستان کے خلاف ہوتی ہے۔لیکن لیکن اس بار ستمبر میں پاکستان خود اپنے آپ سے جنگ لڑ رہا ہے۔سیاسی جنگ چھڑ چکی ہے۔ہر شہر میں تشدد،پولیس کے ساتھ جھڑپیں زور پکڑ چکی ہیں۔اسلام آبادبیس دنوں سے محاصرے میں ہے۔
۔سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے گریبان پکڑے ہوئے ہیں۔الزامات کے طوفان ٹھاٹھیں مار رہے ہیں۔ایک دوسرے کو غدار،بزدل،لالچی جیسے القاب سے نواز رہے ہیں۔ایک انقلاب کے نعرے لگوا رہا ہے تو دوسرا تبدیلی چاہتاہے۔اسلام آباد میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔خانہ جنگی کا عالم ہے۔لو گ مر رہے ،زخمی ہو رہے ہیں۔تماشائی تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ایک طرف جانی نقصان ہو رہا ہے تو دوسرے طرف معیشت کا پہہ جام ہو گیا ہے۔مہنگائی کا منہ روز طوفان بے قابو ہے۔نقابی چہرے تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔یقنیاً دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہو رہاہے۔
عالمی طاقیتں پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھتی ہیں اور اس کو ریزہ ریزہ کرنے کے خواب دیکھتی رہتی ہیں۔خود سامنے نہیں آتی مگر اپنی چالیوں سے ہم میں سے میر صادق،میر جعفر جیسے ضمیر فروش لوگوں کو ڈالروں میں تول کر ہمارے ہی ملک میں انتشار پھیلا رہی ہیں۔
آج بھارت ہمارے دریائوں پر غیر قانونی ڈیم بنا کر بیٹھا ہے اور ہم کچھ بھی نہیںکر پائے۔پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے کھیت ویران ہو رہے ہیں ،ملک میں بجلی کا شدید بحران ہے۔دشمن تو موقع کی تلاش میں ہوتا ہے اور موقع ملتے ہی وار کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔آج پاکستان میں افراتفری کا میدان گرم ہے۔بھائی ،بھائی کا گریبان پکڑے کھڑا ہے۔ہمارے سیاستدان عقل سے عاری ہو گئے ہیں۔جمہوریت کا الارم الانپے جاتے ہیں۔مگر جمہوریت کے قوانین کی کوئی پاسداری نہیں کرتا۔آئین کی باتیں کرتے نہیں تھکتے اور خود ہی آئین توڑتے ہیں۔
عوام کو اپنے مفادات کی خاطر بغاوت پر اُکسائے جاتے ہیں۔کبھی سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا جاتا ہے،تو کبھی جلائو،گھیرائو کی باتیں ہوتی ہیں۔شہید بھی ہونا چاہتے ہیں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں رہتے ہیں۔سکیوڑتی مانگتے ہیں۔جہاد کا معنی ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔آج اپنی بہنوں، بیٹیوں کو روڈ پر بے پردہ،ڈانس کروا رہے ہیں۔کیا اسلامی احکامات یہی ہیں۔ارے اسلام تو عورت کو چاردیواری میں رہنے کا حکم دیتا ہے ۔غیر محرم سے پردے کا حکم دیتا ہے اور یہاں۔۔۔؟اپنے گربینوں میں جھانک کر دیکھو۔آنکھوں سے سیاہ پٹی تو اُتار کر دیکھو۔دل پر پڑے پردے ہٹا کر دیکھو۔
سوال یہ اُٹھتا ہے کیاعوام ہی قربانیاں دینے کے لئے ہوتی ہے۔؟عوام کی بنیادی ضروریات تو پوری کر نہیں پائے اور اپنی کرسی،اپنے مفادات کی خاطر ان کو مرواتے ہیں۔جو پارٹی اقتدار میں آتی ہے ،سیاستدان اسی میں بڑی ڈھٹائی سے شامل ہو کر مراعات کے مزے لیتے ہیں۔
Truth
حقیقت تو یہ ہے لوگ امریت کو بُرا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔ ظلم،جبر وستم کے القاب سے نوازتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے امریت ان سیاسی لوگوں کیلئے بے شک بُری ہو مگر عوام کے لئے سو فیصد درست ہے۔کم از کم غریب فاقہ کشی کی زندگی تو گزارنے پر مجبور نہیں ہوتا۔بنیادی ضروریات سے محروم تو نہیں ہوتا۔تاریخ شاہد ہے امریت ہی کامیاب رہی ہے اور رہے گی بھی۔آج تک جمہوریت نے قوم کو دیا ہی کیا؟پل پل کا مرنا،مہنگائی کا طوفان۔دووقت کی روٹی تک چھین لی۔چند خاندانوں والی جمہوریت پاکستان کی جڑیں کاٹ رہی ہے۔جب جب جمہوریت آئی ،اقتدار کی کرسی انہی خاندانوں میں گھومتی رہی ہے۔
جنہوں نے پاکستانی عوام کے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لینے کی قسم کھا رکھی ہے۔عوام خودکشیاں کر رہی ہے اوریہ اے سی کمروں میں بیٹھ کر اپنے ضمیر وں کا سودا کرتے رہتے ہیں۔ڈالروں کی ہوا نے انہیں پاگل بنا رکھا ہے۔پاکستانی عوام کی خون پسینے کی کمائی بیرون ملکوں میں جمع کرتے نہیں تھکتے۔عوا م سے ٹیکس لے لے کرخود کو پال رہے ہیں آئے میرے خدایا!اب پھر ستمبر آیا ہے پاکستان کی حفاظت تو نے ہی کرنی ہے۔ان کرپٹ سیاستدانو ں سے نجات عطا فرما اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا سچا،عدل ،انصاف کرنے والاحاکم عطا فرما۔میرے مولا!پاکستانی عوام پر رحم فرما،رحم فرما۔تاکہ تیرے نام لینے والے سکون سے آزاد ریاست میں رہ سکیں۔