سے بھی بڑے ڈکٹیٹر نکلے۔ جنہوں نے اپنے ہی پارٹی کے منتخب صدر کو صرف ایک اعلان کر کے پارٹی سے علیحدہ کر دیا۔ حالانکہ مخدوم جاوید ہاشمی کو کسی بھی جگہ نوٹس بھجوایا جانا ضروری تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مخدوم جاوید ہاشمی جو کہ تحریک انصاف کے منتخب صدر ہیں جن کے ساتھ 10 سے زائد ممبر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی بھی موجود ہیں کے ساتھ ملکر فاروڈ بلاک بنا سکتے ہیں۔ کور کمانڈر کانفرنس میں شاہرہدستور پر پر تشدد واقعات میں ہلاکتوں اور زخمیوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور جمہوریت کی حمایت کی گیئ۔ ساتھ ہی دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا بھی کہا گیا۔ 18 روز سے جاری عمران خان اور طاہرالقادری کا اسلام آباد میں دھرنے میں ضلع لیہ سے دونوں جماعتوں کے کارکنوں کی شرکت۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن کی زیر قیادت ایم ایم روڈ پر استحکام پاکستان ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
جبکہ تحریک انصاف ، پاکستان عوامی تحریک اور مجلس وحدت المسلمین نے بھی ایم پی اے مجید خان نیازی کی قیادت میں ریلی نکالی۔ اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے 18روز سے جاری دھرنوں اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے باعث سینکڑوں کارکن و پولیس ملازمین کے زخمی ہونے اور 2 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ لاہور سے اسلام آباد D چوک تک پر امن رہنے کے بعد یار لوگوں کے مشورے پر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان اسمبلی سیکریٹریٹ اور وزیر اعظم تک جا پہنچے۔ مظاہرین کے پاس ڈنڈے ، بنٹے ، پتھر اور پیٹرول تک موجود تھا۔ جس کو کسی صورت پر امن احتجاج نہیں کہا جا سکتا۔ دوسری جانب باغی ایک بار پھر باغی ہو گیا۔ جاوید ہاشمی کے مطابق انہوں نے کور کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کے ساتھ معاہدہ پر عمل کرنے اور ریڈ لائن کراس نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
جس پر اتفاق بھی ہو چکا تھا لیکن کہیں سے پیغام آنے پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خود ہی آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے مطابق عمران خان کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ عمران خان نے جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس کے بعد جاوید ہاشمی سے اپنے راستے الگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ حالانکہ جاوید ہاشمی تحریک انصاف کے منتخب صدر ہیں۔جنہیں ایسے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ مظاہرین کی جانب جیو کے دفتر پر حملہ اور پولیس کی جانب سے مختلف چینلز کی گاڑیوں پر حملہ اور کارکنوں پر حملہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ جس کے باعث ملک بھر میں شدید افراتفری پیدا ہو گئی ہے۔ ملک بھر میں تحریک انصاف ، عوامی تحریک ، سنی اتحاد کونسل اور وحدت المسلمین کے کارکن سڑکوں پر آگئے۔جس کے باعث خانہ جنگی کا سا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج نیچے جبکہ کاروبار نہ ہونے کے باعث تاجر طبقہ سخت پریشان ہے۔
اب تک سیاسی جماعتوں ایم کیو ایم ، پاکستان پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی کی جانب سے سے کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔ اور یوں دونوں جماعتوں کے چند ہزار افراد جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں اسمبلی سیکریٹریٹ کے احاطہ میں خیمہ زن ہو گئے ہیں۔اور بددستور کشیدگی جاری ہے۔ گزشتہ چند روز قبل سپریم کورٹ نے شاہرہ دستور کو کلیئر کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ جس پر حکومت نے رسمی کاروائی کی لیکن عوامی تحریک کے لوگوں نے خود ہی سڑک خالی کر دی اور اب ریڈ لائن کو عبور کرتے ہوئے اسمبلی سیکریٹریٹ تک جا پہنچے ہیں۔ اس کے علاوہ مظاہرین نے PTV کے دفتر پر دھاوا بول دیا اور عملہ کو یرغمال بنا کر نشریات بند کر دیں۔ جس پر فوج کو طلب کر لیا گیا اور بعد ازاں نشروشاعت بحال کر دی گئیں۔
عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہرالقادری نے فائنل رائونڈ کی دھمکی دیتے ہوئے غسل کر کے کفن پہن لیا۔ اور کہا کہ میاں نواز شریف ، شہباز شریف فوراً مستفی ہوں اور ان سمیت رانا ثناء اللہ ، ڈاکٹر توقیر شاہ اور حمزہ شہباز شریف سمیت دیگر سانحہ ماڈل ٹائون میں ملوث 21 مبینہ ملزمان کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جائے۔ ہائی کورٹ نے بھی سانحہ ماڈل ٹائون کا مقدمہ درج کرنے کا حکم برقرار رکھا۔ دوسری جانب عمران خان نے اپنے مطالبات نہ ماننے پر دھمکی دی ہے کہ اگر وزیر اعظم میاں نواز شریف کو گھر نہ بھیجا گیا تو وہ پورا ملک جام کر دیں گے۔ اس طرح پاکستان کے سیاسی منظر میں کمی کی بجائے آئے روز شدت آرہی ہے۔ جوکہ عوام کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے 31 میں سے 25 ارکان کے استیفوں پر سپیکر قومی اسمبلی نے اراکین کو بلالیا۔ جبکہ کے 6 نے عمران خان کے نام لکھے جو کہ غلط ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا شاہرہ دستور خالی کرنے سے انکار۔ریلیوں سے خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔
حکومت کیلئے سانحہ ماڈل ٹائون گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ رات کے وقت شب خون مارنا بھی تو سراسر ناانصافی ہے۔ اور پھر مقدمے کا اندراج اور اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات نہ ہونے سے یہ معاملہ یہاں تک پہنچا۔ اگر پنجاب حکومت رانا ثناء اللہ اور ڈاکٹر توقیر جیسے مشیروں کے نرغے سے باہر نکلی۔ پہلے تو اتنا بڑا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ اگر کسی وجہ سے ایسا ہو بھی گیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اس میں ملوث نہیں تھے تو پھر اتنی دیر کیسی؟ عدالتی ٹریبونل کے مطابق شہباز شریف نے خود کو بچانے کیلئے متضاد بیان دیئے۔ بے گناہوں کے قتل عام کی ذمہ دار پنجاب حکومت اور پولیس ہے۔ منہاج القرآن کے باہر بیریئر قانونی تھے۔ حکومت نے سچائی چھپانے کی بھرپور کوشش کی۔
Dr Tahir ul Qadri
یہ سب اگر 14 اگست سے پہلے ہو جاتا تو ڈاکٹر طاہرالقادری کو کم سے کم یہ موقع تو نہ ملتا۔ اگر باوجود اس کے وہ احتجاج کرتے تو پھر ان کا احتجاج بھی مؤثر نہ ہوتا۔ دوسری جانب حکومت وزارت داخلہ نے انقلاب اور آزادی مارچ کو اتنا لائٹلی لے لیا کہ ان کو ریڈ زون ایریا تک لے آئی۔ اور اب ان کا کر بھی کچھ نہیں سکتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ علامہ طاہرالقادری جو کہ موجودہ نظام کے خاتمے کی بات کرتے ہیں کس طرح نظام میں تبدیلی آئے گی۔ اور حکومت کی دوبارہ تشکیل کیلئے کیسے اور کون کروائے گا۔ اگر یہ سب کچھ منواتے منواتے ماشل لاء لگ جائے تو قادری صاحب کو باری کون دے گا۔ اور کیسے اصلاح ممکن ہو گی۔ اس معاملے پر پوری قوم تحفظات رکھتی ہے۔ آئی جی پولیس کا استیفیٰ جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے حکومت کے زبانی احکامات ماننے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ میاں سرداران زبانی حکم دینے کے عادی ہیں۔ اور پھر کچھ ہو جاتا ہے تو اس کی سزا بھی موقع کے افسران کو بھگتنا پڑتی ہے۔
پاکستان کا دشمن جس کے عزائم بہت خطرناک ہیں گھات لگائے بیٹھا ہے کہ اب اور کب کچھ ہو۔ آپ دیکھیں کہ گزشتہ ماہ فلسطین میں ہونے والے مظالم پر پاکستانی قوم اور میڈیا نے مظالم کے خلاف زبردست آواز بلند کی لیکن جونہی آزادی اور انقلاب مارچ نے سر اٹھایا تو فلسطین کا مسٔلہ پیچھے ہی رہ گیا۔ اب گولہ باری اور شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دشمن انتظار میں ہے کہ پرامن احتجاج کب تشدد ، جلائو گھیرائو میں تبدیل ہو اور ملک سے جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوجائے۔ کیونکہ اس وقت میاں نواز شریف نے اپنے ممبران اسمبلی پارٹی ورکروں کو نظر انداز کر کے ملک میں توانائی کے معاہدے کیئے ہیں۔ ڈالر کی قیمتوں میں کمی اور تیل کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ میاں برادران کو یہ علم ہونا چاہیئے کہ اگر وہ پارٹی ورکروں پر توجہ دیتے اور ڈی پی او، ڈی سی اوز کے ذریعے حکومت چلانے کی بجائے ممبران اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کو اہمیت اور اختیار دیتے تو آج مسلم لیگی کارکن یوں سُست نہ ہوتا۔
Rally
اور ان کی بیٹری چارج نہ کرنا پڑتی۔ تاہم ملک بھر کی طرح ضلع لیہ کی معروف شاہرہ ایم ایم روڈ پر گزشتہ روز مسلم لیگ ن کی جانب سے ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن اور سابق ایم پی اے ملک عبدالشکور سواگ کی قیادت میں بہت بڑی استحکام پاکستان ریلی نکالی گئی جس میں مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر عابد انوار علوی ، چوہدری بشارت رندھاوا ، حاجی یٰسین جٹ ، چوہدری زاہد عزیز ایڈووکیٹ ، چوہدری شاہد عزیز گجر ، چوہدری ظفر اقبال ایڈووکیٹ ، سردار ذوالفقار علی خان ایڈووکیٹ ، حاجی منشاء ، حاجی رحمت اللہ جٹ ، حاجی غلام رسول جٹ ، چوہدری بوٹا شہزاد، چوہدری جاوید اصغر ، حاجی محمد رمضان ، رانا سرور ، سید طاہر شاہ، ملک ظہور سواگ، سابق صدر انجمن تاجران طارق پہاڑ ، ملک اسماعیل کھوکھر، چوہدری پرویز، چوہدری ذوالفقار گجر ، چوہدری سرور گجر، شیخ امین گڈو، خالد کھرل، صاحبزادہ وسیم الحسن، اور صاحبزادہ فہیم الحسن سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
یہ ریلی داسو نہر سے لے کر آصف نہر یعنی 4 کلومیٹر لمبی تھی۔ جس میں صاحبزادہ فیض الحسن نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پیدل مارچ کیا۔ ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن نے ریلی میں شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ توانائی کے 20 سے زائد منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ڈالر کی قیمتیں نیچے آگئیں ہیں۔ تیل کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں ملک ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ ترقی مخالف جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کیلئے ملک کے حالات خراب کر رہے ہیں۔ ننگے سر میک اپ کیئے رقصاں خواتین کے ذریعے اسلام آباد میں شو لگائے جا رہے ہیں۔ کیا یہی نیا پاکستان ہو گا۔ چند ہزار افراد کی لشکر کشی کے ذریعے ملک کے 18 کروڑ عوام کو ہرگز یرغمال نہیں بنایا جا سکتا۔ مسلم لیگ ن کے کارکن اگر گھروں سے نکل پڑے تو مخالفین کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ عمران خان بڑے لیڈر ہیں۔ انہیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اور بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے سے ہی مسائل حل کرنا ہونگے۔
ریلی میں سینکڑوں موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں موجود تھیں۔ سابق صوبائی وزیر ملک احمد علی اولکھ جن کا یہ حلقہ تھا نے ریلی میں باوجود فتح پور میں موجود ہونے کہ شرکت نہ کی۔ شائد ملک احمد علی اولکھ جن کے صاحبزادہ فیض الحسن سے اختلافات ہیں علیحدہ کروڑ میں ریلی نکالنا چاہتے ہوں۔ ضلع لیہ میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی کافی بڑی تعداد موجود ہے یہاں کی 6 صوبائی اور 2 قومی نشستوں میں سے صوبے کی ایک نشست تحریک انصاف کے امیدوار عبدالمجید نیازی اور ایک پیپلز پارٹی کے شہاب الدین سیہڑ نے جیتی۔عبدالمجید نیازی باقاعدہ دھرنوں میں شامل نہیں ہوئے اور اکثر آتے جاتے رہے۔یا یوں کہنا بہتر ہو گا کہ انجوائے کرتے رہے۔ اور زیادہ وقت اپنی رہائش گاہ پر گزارا۔ جبکہ باقی سیٹیں مسلم لیگ ن کے پاس ہیں۔ لیکن مسلم لیگ ن کے پارٹی رہنمائوں اور ممبران اسمبلی کے درمیان کافی سارے اختلافات موجود ہیں۔ میاں نواز شریف کی ہدایت پر کمیٹی کے افراد سعود مجید ایم این اے و دیگر لیہ کا دورہ کر چکے ہیں۔
لیکن آج تک یہ مسٔلہ حل نہ ہو سکا۔ وزیر اعظم کی کنپٹی پر پستول رکھ کر استیفیٰ لینے کی روایات سراسر غلط ہیں اور پارلیمنٹ پر دھاوا اور دھمکی بغاوت ہے۔ معاملہ جمہوریت کا نہیں بلکہ نوازشریف کا نکالنے کا ہے۔ لیڈران چوہدری برادران اور شیخ رشید جیسے مشیروں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ چوہدری برادران کبھی بھی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔ بلکہ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔دوسری جانب تحریک انصاف ، پاکستان عوامی تحریک اور مجلس وحدت المسلمین کی جانب سے بھی حکومت کے خلاف ایم پی اے مجید خان کی قیادت میں ان کی رہائش گاہ سے ایک موٹرسائیکل اور گاڑیوں پر ریلی نکالی گئی جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کر کے حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔ اور گو نواز گو کے نعرے لگائے۔
ڈالر کی قیمت 102 روپے سے بڑھ چکی ہے۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ 2 ہزار ارب روپے ٹیکس چوری کیا جاتا ہے۔ حکومت کو مسائل اور گرداب سے نکالنے کیلئے وقت کی ضرورت تھی لیکن دھرنوں میں مشکلات میں اضافہ کر دیا۔ مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں فاروڈ بلاک کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ جس کے بعد مسلم لیگ ن کے پاس پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ اور پیپلز پارٹی کو ڈپٹی وزیراعظم سمیت وزارتیں دی جا سکتیں ہیں۔