عمران خان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ میاں نواز شریف استعفیٰ دیں، اس کے لئے آزادی مارچ کیا اور پندرہ دن سے زیادہ ہوگئے ہیں کہ اسلام آباد میں اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ دھرنا دئے بیٹھے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں میاں نواز شریف کے استعفیٰ پر قطعی دو رائے نہیں کہ استعفیٰ کا مطالبہ سرے ہی سے غیر آئینی ہے ، کوئی یہ سمجھے کہ میں میاں برادارن کا حامی یا عمران، یا قادری صاحب کا حامی تو میں کسی کا نہ تو حامی ہوں اور نہ ہی مخالف پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے کہیں بھی کسی کو ووٹ نہیں دیا اور شائد آئندہ بھی کسی کو ووٹ نہ …. اس لئے کہ کسی الیکشن میں ایسا کوئی نہیں دیکھا جو میرا نمائندہ ہو ،مخصوص طبقہ سے آنے والوں کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے۔
میرے لئے کسی کے پاس سوائے سبز باغ اور وعدہ کے کچھ نہیں ہوتا ، اگلے دن وزیر آعظم نے پالیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ،اور شیخ الاسلام جناب طاہرالقادری نے آرمی چیف سے ملنے کی خواہش کی تو ہم نے انہیں ملوا دیا ،اس کے رد عمل پر جناب قادری صا حب نے اگلے دن قومی اسمبلی میں میاں نواز شریف کے بیان پر سیخ پا ہوئے اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر آعظم کو جھوٹا کہا کہ ہم نے اں سے ایسی کوئی خواہش نہیں کی ،. اور جمعہ کو وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خاں صاحب نے پریس کانفرنس میں کھل کر کہا یہ اہم بات کی کہ ہم نہیں چاہتے کہ آرمی کو اس گند میں دھکیلا جائے ، یعنی پاکستان کی موجودہ سیاست کو انہوں نے گند کہا، جو گند میں سیاست دا ن ہی پڑے رہیں تو … انہوں نے کہا فوج کا ضامن اور ثالث کا کردار غیر آئنی ہے فوج کو بدنام کیا جائے۔
نہ ہی اس (سیاسی ) گند میں دھکیلا جائے اور یہ اس بات اعتراف ہے کہ سیاست ہے ہی گند کا ڈھیر اور سیاست دان اس گند کے پروردہ ہیں اور گند ہی سے موجودہ دور کی متعفن جمہوریت جنم لیتی ہے ، ہم نے آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فوج سے سہولت کا رکی خدمات لیں جسے غلط رنگ دیا گیا …”یہاں وزیر داخلہ کے بیان سے دو اہم باتیں سامنے آئی ہیں اول یہ موجودہ دور کی سیاست کو چوہدری نثار علی خاں نے گند سے تعبیر کیا اور دوسری اہم بات فوج کو پیغام دیا گیا کہ جناب یہ گند ہے اِس سے آپ دور ہی رہیں تو اچھا ہے ،اور یہی ایک سچ ہے کے پاکستانی سیاست اور جمہوریت گند ہے۔
آج کی جمہوریت زرق برق لباس میں وقت کی بد ترین جمہوری آمریت ہے ،خاندانی جموریت ،اس وقت کابینہ میں میاں صاحب کے خاندان ا ورقریبی رشتہ داروں کی بڑی تعداد ہے اور باقی ماندہ اہم سرکاری مناصب پر ان کے قریبی دوستوںکی بڑی تعداد بتائی جاتی ہے اِسے اگر کوئی کہے کہ یہ لوگ عوام کے نمائندے ہیں تو یہ خود فریبی ہے ،مگر جو کچھ کہنے جا رہا ہوں تو مجھے وہ سچ بیان کرنا ہے جس کی آج ضرورت ہے،جو کار کن کل کے ہنگاموں میں جاں بحق ہوئے انہیں کل کون یاد کریگا اگر ان کے پس ماندگان میں بچے ہونگے تو اُن کا کون پرسان حال ہوگا ،کتنے ہی لوگ زیڈ اے بھٹو کے لئے مارے گئے ایک مسیحی نے بھٹو کے لئے خود سوزی کی ،تین مرتبہ پی پی پی کی حکومت آئی کسی نے پوچھا وہ کون تھا نہیں ….. آئنی اور غیر آئینی کے مسلے پر جائے بغیر پہلے ایک دیہاتی جٹ کی بات پر بھی غور کریں،وہ اپنے کھیت میں کھڑا ہے کہ خرگوش بھاگتا ہوأ آیا اور جٹ کی ٹانگوں میں سے گزر گیا ،اور جٹ بدستور کھڑا سوچ رہاکہ گاؤں کا گنگوں تیلی کا گزر ہوأ تو اُس نے چوہدری سے پوچھا کیا ہوأ پریشان کھڑے ہو تو چوہدری نے کہا یار گنگو (اپنی ٹانگوں کے درمیان اشارہ کرتے ہوئے کہا)سیہ(ماجھے کی زبان پنجابی میں خرگوش )گزر گیا ہے تو پریشان …گنگو نے بات کاٹے ہوئے کہا چوہدری وہ تو اپنی کھُڈ (بِل) میں جا سویا ہے اور تو یہاں ،اوئے گنگو اوئے میں پریشان ہوں یہ اب پیہ(راستہ )بن گیا ہے، مان لیتے ہیں کہ وہ دھاندلی سے آئے ہیں مگراستعفیٰ سے اک راہ بن جائے گی۔
Nawaz Sharif
کوئی اچھی روائت نہیں ہو گی ،کل اور بھی کوئی اسی طرح پھر وزیر آعظم کے استعفی ٰ کا مطالبہ کرے گا اِس کے لئے اسمبلی فورم میں ایسے کسی وزیر آعظم کو ہٹانے کا آئینی طریقہ موجود ہے ، مگر لگتا ہے کہ عمران خان صاحب کا منصوبہ ہے کہ اپنے کار کن مروائے تاکہ فوج کو ٹیک اور کرنے کا جواز یا مجبور ہو جائے ، اور ملک پھر میں مارشل لاء لگ جائے ،عوام کی خاموش اکثریت تو چاہتی ہے کہ اِن ظالم حکمرانو ں سے آزادی ملے کہ مارشل لاء ادوار میں عوام کو ریلیف ملتی ہے ،٢٠٠٨ کے بعد جمہوری ادوار میں عوام کی زندگی ہی عذاب بنا دی گئی ہے ،آزادی مارچ اور لانگ مارچ کے دونوں رہنماؤں کا اعلان تھا کہ پہلی گولی ہم کھائیں گے مگر نہیں وہ صرف کارکنوں کا خون گرمانے کے لئے تھا سو کارکن اسکے لئے اگے بڑھے اور چند جاں بحق ہوئے اور بڑی تعداد زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ گئی لیکن ابھی منصوبہ کامیابی سے دور ہے کہ فوج ، حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے کچھ سبق لیا ہے۔
اب صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے میرا خیال نہیں کہ عمران خان کے ہاتھ کچھ آئے اور جناب طاہر القادری تو ابھی بہت ودر ہیں اچھا ہے کہ اب بھی بندے مروانے کی بجائے کچھ لو اور کچھ دو پر صاد کر لیں قادری صاحب کا اہم مطالبہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے نامزد ملزموں کی ایف آئی آر، درج کرانا تھی جو پہلے حملہ ہی میں عدالت عالیہ کے حکم پر درج ہوئی، اگر اس میں کوئی سقم ہے تو اس کے لئے حکومت پر دباؤ مزید بڑھایا جائے یہ وقت کی ضرورت، سو اب اسکی پیروی کریں بہترین وکلاء سے لمحہ بہ لمحہ مشاورت کریں، آپ کو عوام کی حمائت بھی حاصل ہو گی،ان سطور کی اشاعت تک حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، کچھ نہیں کہہ سکتے کہ لمحہ بہ لمحہ حالات میں حدت بڑھ رہی ہے، دونوں حضرات کا کارکن مروائے بغیر واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ،ویسے بھی وزیر آعظم کے استعفیٰ پر بند گلی میں پہنچ چکے ہیں …..خدا خیر کرے۔