اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوامی مقدر میں شاید سیاسی عدم استحکام لکھا جا چکا ہے، تبھی تو یہاں آئے دن ایسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جن سے فوج کو اقتدارِ اعلیٰ میں داخل ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ سچ کہوں کہ یہ قوم بھی ڈنڈے کی لگتی ہے کیونکہ اتفاق و اتحاد نہ تو عوام میں ہے اور نہ ہی سیاسی لوگوں میں۔ ویسے تو ملک میں جمہوریت برائے نام ہی ہے ، مگر جو کچھ بھی ہے اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اور اسی لئے اگست میں مارچ بھی ہو رہا ہے۔ مگر جو لوگ ایسی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں وہ اسے بالکل فراموش کر دیتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا اور اس سے کس کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ حد تو یہ ہے کہ سیاست میں داخل افراد بھی اس کی پروا نہیں کرتے کہ ملک میں جمہوریت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بس اس شعر پر قناعت کیجئے اور سمجھ جایئے کہ راقم کیا کہنا چاہ رہا ہے۔
نہ تم صدمے ہمیں دیتے، نہ یوں فریاد ہم کرتے نہ کھلتے راز سر بستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
اپنے ملک کے داخلی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہر طرف بکھرائو اور انتشار نظر آتا ہے۔ علاقائی عصبیت تو منتہائے عروج پر ہے ہی ، ملک سندھیوں، پنجابیوں، مکرانیوں ، پٹھانوںاور مہاجروں میں بٹا ہوا ہے۔ شیعہ سنی تنازعہ نے آشوب کی صورت اختیار کی ہوئی ہے۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں پر حملے معمولی بات ہیں، زندگی اتنی غیر محفوظ ہے کہ گھر سے نکل کر دفتر جانے والوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ صحیح سلامت واپس گھر بھی لوٹ سکیں گے یا نہیں۔ عرضِ وطن اور افغانستان کی سرحدوں پر آباد شدت پسند قتل و غارت گری کا خوفناک ماحول بنائے ہوئے ہیں۔ بڑے شہروں میں آئے دن خونریزی کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ غرض کہ ہمارا ملک ہمہ وقت عدم استحکام کا شکار ہے۔
حالیہ دنوں میں مارگلہ کی وادی، اسلام آباد میدانِ کارزار میں بدل چکا ہے۔ پرائم منسٹر ہائوس کا گھیرائو جاری ہے۔ شریف برادران کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کی زبردست عوامی مہم جاری ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کا ایسا ماننا ہے کہ وزیراعظم صاحب نے عوامی انتخابات میں دھاندلی اور بے ایمانی سے کام لیا تھااس لئے ان کی بے دخلی کو یقینی بنایا جانا ملک اور ملک کی سلامتی کے حق میں ہوگا۔ دوسری طرف حکمران طبقہ بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، ایسے میں ایک بے عقل شخص بھی یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرے گا کہ ملک اور یہاں کے حالات کس طرف جائیں گے۔ مظاہرہ کرنے والے عوام کا ایک حلقہ پارلیمنٹ کے اطراف میں موجود ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
پولیس اور مظاہرین کے بیچ جھڑپوں کے دوران کئی افراد لقمۂ اجل بھی بن چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد پانچ سو کے ہندسے کو عبور کر چکی ہے۔ کل رات بھی کریک ڈائون کی اطلاع میڈیا پر چلائی گئی جس کی وجہ سے لگ بھگ آدھا پاکستان جاگتا رہا کہ اب کیا ہونے جا رہا ہے۔ مظاہرین بھی نعرۂ تکبیر اور پولیس والے بھی نعرۂ تکبیر کی صدائیں بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ پاک فوج موجودہ سیاسی انتشار پر اپنی فکر مندی کا اظہار کر رہی ہے اور جلد یہ مسئلہ حل کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ اور یہ عندیہ وقت کی ضرورت بھی ہے کیونکہ مزید وقت ضائع کرناملک اور ملک کے عوام کے لئے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔اور امن کا قیام مزید دشوار ہو جائے گا۔عوام تو اس قدر پریشان ہیں کہ بس! ان کے حال پر یہ شعر گنگنانے کو جی چاہتا ہے۔
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلے کیوں لٹے یہاں رہبری کا سوال ہے مجھے رہزنی سے غرض نہیں
پڑوسی ملک کے ایک کالم نویس نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان اس وقت بد ترین سیاسی دور سے گزر رہا ہے۔ بقول ان کے وہ ایک بار ہی پاکستان آئے ہیں اور یہاں ہر پیشہ کے احباب سے ملے بھی ہیں۔ جس کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ شریف برادران نے یہ الیکشن بہت بڑی بے ایمانی سے جیتا ہے۔ (روزنامہ اوودھ نامہ ، بروز منگل،بتاریخ ستمبر٢، ٢٠١٤) پچھلے انیس دنوں سے ملک کا دارالخلافہ اور اس کا ریڈ زون برابر عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں چلا آ رہا ہے۔
مظاہرہ کرنے والی دونوں جماعت کے سربراہان حکومت سے کسی مصالحت و مفاہمت کا حصہ بننے کو فی الحال تیار نہیں ہیں، اور یہ انقلابی اور آزادی دھرنا جاری ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت کے مصالحت کاروں کو بھی ابھی تک سیاسی سلاخ پگھلانے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ یعنی افرا تفری جاری و ساری ہے۔ ملک عدم استحکام کی جانب رواں ہے اور سب ہی اپنی اپنی ساکھ بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔
چودہ اگست ١٩٤٧ء کو لاکھوں لُٹے پٹے لوگ اپنے جان و مال اور اپنی آل اولاد سمیت بیس لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دے کر صرف اپنی قیمتی متاع ایمان کو سینے سے لگائے اور اپنی آنکھوں میں صرف اور صرف آزادی اور انقلاب کا سپنا سجائے مارچ کرتے ہوئے پاک سر زمین پہنچ گئے اور یہ سوچ کر اپنے غموں اور محرومیوں کو پسِ پشت ڈال دیا کہ وطنِ عزیز میں اللہ کا قانون ہوگا اور بندوں کی غلامی سے انہیں ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔ اس کا وعدہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے فکری دوست علامہ اقبال کی خوشہ چینی کرتے ہوئے ان لٹے پٹے انسانوں سے کیا تھا۔ لیکن ٦٨ سالوں بعد بھی فلک نے ایک عجب منظر یہ دیکھا کہ آج چودہ اگست کے دن خدا کی اس بستی میں سب کو اپنی اپنی بادشاہت قائم کرنے کی فکرستائے ہوئے ہے۔ جنہیں عوام کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا وہ بھی اپنی بادشاہت قائم کرنے کی تگ و دُو میں محو ہیں۔
Supreme Court
پاک افواج، سپریم کورٹ کے ججز اور تقریباً تمام ہی سیاسی لیڈروں نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان صلح کروانے کی سر توڑ کوشش کی، مگر تاحال ان سب کو کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کو جمہوریت راس ہی نہیں آتی ہے۔ ہمارے یہاں کافی عرصے بعد جمہوریت کا جو پودا پنپنے لگا تھا اور یہاں یہ پہلا موقع تھا جب انتخابات کے بعد برسرِ اقتدار آئی پیپلز پارٹی نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی تھی۔ اس کے بعد نواز شریف جیت کر آئے۔ لیکن ہمارے یہاں جس طرح اقتدار کے لئے کھینچا تانی مچی ہوئی ہے اور ایک تعطل کی صورتحال ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ جمہوریت کا پودا ہمارے ملک میں اس قدر تناور نہیں ہوا ہے اور اب سیاسی چپقلش کے بعد مرجھانے کے دَر پہ ہے۔
جس طرح حکومت اور مخالفین اپنی اپنی ضد پر قائم ہیں اور ایک ٹکرائو کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں جمہوریت شاید چند دنوں ہی کی مہمان ہے۔ ملک کے تمام مقتدر حلقوں اور لیڈروں سے دل کی گہرائیوں سے التجا ہے کہ اس جمہوریت کے پودے کو مرجھانے سے بچانے کی تدبیر کریں کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔اب ہم سب کو دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں، افواجِ پاکستان اور سپریم کورٹ جمہوریت کو بچانے میں کیا کیا مؤثر اقدامات کرتی ہیں۔ یعنی ہمیں ابھی وقت کا انتظار کرنا ہے Just Wait & Watch۔