کراچی تا لاہور کارگو ٹرین سروس بحال، ریلوے کو روزانہ 60 لاکھ روپے کی آمدنی ہو گی

Train

Train

کراچی (جیوڈیسک) پاکستان ریلوے نے 5 سال قبل بند کی جانے والی کراچی تا لاہور کارگو ٹرین سروس سپر پارسل ایکسپریس کا آغاز کر دیا۔ 24 بوگیوں پر مشتمل مال بردار ٹرین سے ریلوے کو 4 کروڑ 80 لاکھ روپے کی ماہانہ آمدنی اور کاروباری طبقے کو سامان کی محفوظ ترسیل کی سہولت میسر آئے گی۔

، چیف آپریٹنگ آفیسر ریلوے محمود الحسن نے کراچی سے لاہور کے لیے سامان کی تیز ترین ترسیل کے لیے چلائی جانے والی کارگو ایکسپریس کا منگل کو سٹی اسٹیشن پر افتتاح کیا۔

اس موقع پر ڈی ایس ریلوے کراچی ڈویژن نثار میمن، ڈپٹی ڈی ایس آپریشن شعیب عادل، ڈپٹی ڈی ایس ٹیکنیکل محفوظ علی خان ،ڈپٹی ڈی ایس ٹیکنیکل محمد ابراہیم راجپر، ڈویژنل کمرشل آفیسر ناصر نذیر کے علاوہ تمام ڈویژنل افسران موجود تھے۔

افتتاح کے بعد محمود الحسن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ خسارے میں چلنے والے محکمہ ریلوے نے بحالی کی جانب سفر کا آغاز کر دیا، 24 بوگیوں پر مشتمل کارگو ٹرین 1380 ٹن سامان ایک شہر سے دوسرے شہر تک لے جاسکے گی۔

محکمے کو روزانہ 60 لاکھ روپے کی اضافی آمدنی ہو گی، نئی مال بردار ٹرین ہر منگل اور جمعرات کو سٹی اسٹیشن سے چلائی جائے گی، ملک کے 3 بڑے شہر کراچی ، لاہور اور فیصل آباد کے تاجروں کو محفوظ اور سستے کرائے پر تجارتی سامان کی ترسیل کی سہولت ملے گی۔

مال بردار ٹرین سروس سے پاکستان ریلوے کو ماہانہ 48 ملین روپے کی آمدن ہوگی اور مال بردار ٹرینوں کے ذریعے خسارہ کم کرنے میں بھی مدد ملے گی، انھوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے میں کارگو سروس کو جدت دینے کے لیے حکومت پاکستان انتہائی دل جمعی سے کام کر رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کراچی سے لاہور تک سامان کی تیز ترین ترسیل کے لیے کارگو ایکسپریس چلائی گئی ہے، انھوں نے بتایا کہ کارگو ایکسپریس 38 گھنٹے میں اپنی منزل تک پہنچے گی۔

ریلوے ورکرز یونین کے مرکزی صدر منظور احمد رضی نے کہ مال بردار ٹرینیں چلنا اچھا اقدام ہے، اگر مال بردار ٹرینیں تواتر سے چلتی رہیں تو محکمہ ریلوے اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا ،انھوں نے بتایا کہ ریلوے میں مال بردار بوگیوں کی کمی ہے۔

جس کے باعث ابتدائی طور پر کھلی بوگیوں پر کنٹینر لوڈ کیے جائیں گے، انھوں نے ریلوے افسران سے مطالبہ کیا ہے کہ ریلوے یارڈ میں کھڑی خراب بوگیوں کو کارآمد بنانے کے لیے اس کی فوری طور پر مرمت کرائی جائے تاکہ کنٹینر کے بجائے بوگیوں کا استعمال بھی کیا جا سکے۔