افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی تعداد میں کمی

Afghanistan Foreign Soldiers

Afghanistan Foreign Soldiers

کابل (جیوڈیسک) افغانستان میں تعینات نیٹو کی اتحادی فورسز سکڑتی جا رہی ہیں۔ امریکا کے ساتھ ساتھ وہاں موجود سلووینیا، منگولیا، ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک کے فوجی بھی اب گھر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔یہ اتحاد ایک دہائی سے زائد عرصے سے شدت پسندوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔

یہ لڑاکا دستے تقریبا چار ماہ میں افغانستان چھوڑ دیں گے۔ اس کے بعد مقامی فورسز کی تربیت کے لئے کِن ملکوں کے اور کتنے فوجی وہاں قیام کریں گے، رواں ہفتے ویلز میں ہونے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں اس نکتے پر بھی غور کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی زیر بحث رہے گی کہ افغان پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو تنخواہیں کون ادا کرے گا۔

ریٹائرڈ ایڈمرل جیمز سٹاوریدیس کا کہنا ہے کہ پہلے ہی بہت خون بہہ چکا ہے، بہت پیسہ خرچ ہو چکا ہے اور کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ اتنا کچھ کئے جانے کے بعد وہاں وہ دیکھنا پڑے جو اس وقت عراق میں ہو رہا ہے۔ 2008ء سے 2013ء تک نیٹو کے سپریم الائیڈ کمانڈر کے منصب پر فائز رہنے والے سٹاوریدیس کا مزید کہنا ہے کہ میرے خیال میں لوگ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں سکیورٹی فورسز کو مزید کوئی سالوں تک مشاورت اور رہنمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

تقریبا تیس ہزار سات سو امریکی فوجی ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما کہہ چکے ہیں کہ وہ رواں برس کے بعد بھی اپنے نو ہزار آٹھ سو فوجی وہاں رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں امریکا کے علاوہ دیگر ملکوں کے فوجیوں کی تعداد چودہ ہزار چار سو ہے۔ مئی 2011ء کے مقابلے میں یہ تعداد پینسٹھ فیصد کم ہوئی ہے اور اس میں تیزی سے مزید کمی کا سلسلہ جاری ہے۔

برطانیہ، جرمنی اور اٹلی جیسے بعض ملکوں کے ابھی بھی کافی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ تاہم 17 ممالک ایسے ہیں افغانستان میں تعینات جن کے فوجیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد پچیس ہے۔

ان میں آسٹریا، بحرین، بوسنیا ہرزگوینا، ایل سلواڈور، ایسٹونیا، یونان، آئس لینڈ، آئرلینڈ، لٹویا، لکسمبرگ، ملائیشیا، مونٹی نیگرو، نیوزی لینڈ، سلووینیا، سویڈن، ٹونگا اور یوکرائن شامل ہیں۔ افغانستان میں امریکا کی سربراہی میں جنگ کے آغاز پر تقریبا پچاس ملکوں نے اپنے فوجی فراہم کئے تھے۔ ریٹائرڈ ایڈمرل جیمز سٹاوریدیس نے خیال ظاہر کیا ہے کہ آئندہ برس افغانستان میں پندرہ سے بیس ملکوں کے فوجی ہی قیام کریں گے۔