ہفتے کی رات اسلام آباد میں ہونے والے سارے واقعہ کو اگر غزوہ ریڈ زون کیا نام دے دیا جائے توشائد بے جا نہ ہوگا۔اور اس غزوہ کی منفرد بات یہ تھی کہ یہاں خندق کی بجائے قبریں کھودی گئی۔(وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا ۔رستے میں اک شیر کا گھر تھا )۔ یہ مصرعے مشہور شاعر صوفی تبسم کی ایک نظم کے ہیں۔ جو اسلام آباد میں ہونے والے واقعہ پر بالکل فٹ بیٹھتے ہیںیوں لگتا کہ جیسے وہ کئی سال قبل ہی ریڈ زون کے اس واقعے سے باخبر تھے۔
کیونکہ جب عوامی تحریک اور تحریک انصا ف کے پر امن کارکنا ن جنہوں نے دو ہفتوں سے ذیادہ سڑکوں پر گزارے مگر اپنے جذبات کو قید کئے رکھا اور پھرجب ہفتے کی رات اس دھرنے کے شرکاء نے جب وزیراعظم ہاوًس کی جانب مارچ کا آغاز کیااور راستے میں موجود رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشیش کی تو بس پھر اسی لمحے ان مظاہرین کا پولیس کے ساتھ دما دم مست قلندر ہو گیا۔ اور بلاآخر وہ سب کچھ ہو ہی گیا کہ جس کا خدشہ تھا اور جس کا ذکر ہر فرد کی ذبان پر پہلے سے ہی تھا۔پولیس کی جانب سے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ ،لاٹھی چارج اور ربڑ کی گولیوں کا اندھا دھند استعمال شروع ہو گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ریڈزون ایک مکمل میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا ۔اور خون کا بازار سر گرم ہو گیا۔ اور ریڈزون کا علاقہ معصوم نہتے لوگوں کے خون سے ریڈ ہونا شروع ہوگیا۔ خوب شیلنگ ،پتھراوً اور تصادم کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں ۔ پولیس نے رہی سہی کسر وہاں موجود اپنی جارحیت یا اصل حقائق کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں پر تشدد کر کے پوری کر دی۔ اس جارحیت کے جواب میں پھر مشتعل مظاہرین نے بھی پولیس پر دھاوا بولااور کئی پولیس اہلکاروں کو بھی ہسپتالوں کی زیارت بخشی۔اس سارے واقعہ میں سب سے ذیادہ ناقابل تلافی نقصان یہ ہوا کہ اس معرکہ میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔جن کی درست تعداد ابھی تک نہیں بتا ئی جا رہی۔
اس ساری جنگ کی وجہ ان مذکرات کی ناکامی تھی جو سترہ روز سے بھی زیادہ حکومت اور دھرنا دینے والی دو جماعتوں کے مابین چلے آ رہے تھے۔ دونوں فریقوں میں کوئی بھی ایک قد م پیچھے ہٹنے کو تیا ر نہیںہے ۔ یوں لگتا ہے کہ دھرنا دینے والی ان پارٹیوں نے طارق بن ذیاد کی طرح واپسی کی کشتیاں جلا دی ہیں۔ اور اس انا اور اقتدار کی جنگ میں نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے۔ملک کا امن ،نظم و ظبط اور معشیت تباہی کے دہانے پر آ پہنچی ہے ۔اس آنکھ مچولی میں سب سے ذیادہ متاثر متوسط اور غریب طبقہ ہو رہا ہے۔کیونکہ ہینڈ ٹو ما وًتھ ذندگی گزارنے والے جب کمائے گے ہی نہیں تو کھائیں گے کیا۔دراصل یہ سب کچھ صرف حکومت کی ناکام پالیسوں اور جلد بازی کی وجہ سے ہو ا ہے۔
اس کے ذمہ دار موجودہ نااہل حکمران ہیں ۔کیونکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ انتہائی صبرو تحمل سے کام لیتی شائد وقت گزرنے کے ساتھ مسائل کا کوئی حل نکل ہی آتا ۔ آگ کو کبھی آگ نہیں بجھاتی۔ انہیں دھرنا دیئے صرف سترہ دن ہی گزرے تھے کوئی سترہ مہینے تھوڑی۔دراصل پی ٹی آئی کی وزیراعظم نوازشریف کے مستعفی ہونے کی شرط بھی کوئی معمولی سی شرط نہیں ۔اگر معمولی سے سکیل والے ملازم پر ہی دباوً ڈالیں کہ وہ سیٹ چھوڑ کر گھر جا بیٹھے تویقینا وہ بھی اتنے آرام سے ایسا نہیں کرے گا وہ بھی اپنا آخری حد تک دفاع کرے گا۔اور یہ تو پھر وزیراعظم کی سیٹ ہے بھئی ۔آخر وہ اتنی آسانی سے کیوں چھوڑے گا۔
وہ تو برسراقتدار ہے۔ اختیارات و طاقت رکھتا ہے اور وہ اپنی سیٹ کے دفاع کے لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کرے گا خواہ وہ جائز ہو یا ناجائر۔ اقتدار نہ تو پلیٹ میں کسی کو ملتا ہے اور نہ ہی کوئی پلیٹ میں رکھ کر کسی کو دیتا ہے۔اپنا عہدہ یا اپنا اقتدار ہر کسی کو اپنی جان جیسا پیارا ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں یہاں تو کرائے دار جلدی مکان خالی نہیںکرتا وہ تو پھر اس ملک کا وزیراعظم ہے۔افسوس سارا اس بات کا ہے کہ یہ ساری سراپا اَنا کی جنگ ہے۔اور اَنا جو کہ ایک مکمل شیطانی وسوسہ جس میں شعور مکمل لاغرہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں تو ویسے بھی ہر معاملہ اَنا کی کسوٹی پر تولہ جاتا ہے۔
ہم معمولی سے معمولی بات کو بھی اَنا کا مسئلہ بنانے میں بے مثال ہیں۔ خدا جانے یہ وبائی مرض کب ختم ہو گا۔ہمارا ہر پڑھا لکھا و جاہل شخص اَنا کی جنگ جیتنے کی خاطر اپنی جان تک کو بھی ضائع کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔اور دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو اَنا کی وجہ سے بڑا مستفید ہو ا ہو۔ غلطیاں انسان سے ہو ہی جاتی ہیں ۔ بعض اوقات ایک قابل ترین شخص معاملات بہتر طور پر نہیں چلا پاتا ۔جیسے کبھی دو اعلیٰ تعلیم یافتہ میاں بیوی بھی خوش اسلوبی سے اپنا گھر بسانے میں ناکام رہتے ہیں۔اختلافات ہو ہی جاتے ہیں اس میں کوئی بڑی بات نہیں لیکن ہر بات کو اَنا کا مسئلہ بنانے سے جہاں تک ممکن ہو گریز کیا جائے۔
Nawaz Sharif
شائد کہ وزیراعظم استعفیٰ کے بارے کچھ سوچ ہی لیتے اگر عوام بغیر کسی لیڈر کا سہارا لئے اپنے بل بوتے پر باہر نکلتی۔مظاہرے کرتی، ہنگامی حالات پیدا کرتی تو شائد وزیراعظم استعفیٰ دے ہی دیتے۔ چونکہ اب معاملہ کچھ اور ہے یقینا اس وقت وزیراعظم نوازشریف استعفیٰ دینا اپنی ذندگی کی سب سے بڑی شکست سمجھیں گے۔ جاں بحق ہونے والے کئی شرکاء کے ہنستے بستے گھر ماتم کدہ بن گئے ہیں۔پرامن کارکنان اب مشتعل ہو چکے ہیں۔جذبہ آزادی اب جذبہ انتقام میں تبدیل ہو گیا ہے۔ملکی حالات جو پہلے ہی ناساز تھے اب مکمل قومہ میں چلے گئے ہیں۔لو آگیا ہے انقلاب۔
اگر دونوں جماعتوںکے کارکنان وزیراعظم ہاوًس کی جانب پیش قدمی کر ہی رہے تھے تو کیا اس لمحے وزیر اعظم اندر موجود تھے؟ لیکن عوام کے خلاف تو ایکشن اس طرح لیا گیا کہ جیسے وزیراعظم اس وقت اس ہاوًس میں موجود ہو۔ چلو فرض کریں کہ اگر دھرنے کے شرکاء پی ایم ہاوًس پر قبضہ کر ہی لیتے۔تو اس بلڈنگ پر قبضہ کسی ایک انسانی جان سے قیمتی تو نہ تھا۔لیکن اداروں کی طرف بے عقلی کا اعلی مظاہرہ کیا گیا۔وزیر اعظم ہاوًس کا دفاع کرنے والوں اب زرا وزیراعظم کی کرسی کا بھی دفاع کر کے دکھاوً۔کارکنان کو بلڈنگ میں داخل ہونے دیتے مت روکتے۔اس سے ایک توان مظاہرین کی انا کی تسکین ہو جاتی اور دوسرا ان کے لیڈران کی۔
یقینا بعد میں انہوں فوج کے کہنے پر پی ایم ہاوًس خالی کر ہی دینا تھا۔کیونکہ ہمیں اس کی ذندہ مثال یوں ملتی ہے جب پی ٹی وی کی بلڈنگ پر کارکنان نے قبضہ کرنے کے بعد فوج کے معمولی اشارے پر خالی کردی تھی۔ کیونکہ ان حالات میں صرف پاک فوج ہی ایک ایسا مہرہ ہے کہ جس پر اعتماد کر رہی ہے۔کبھی فوج کو ثالث بنایا جارہا ہے ۔کبھی اسی سے اپنا دفاع کروایا جا رہا ہے۔یقینا جنرل راحیل شر یف بھی سوچتے ہوںگے کہ وہ بھی کس دور میں آرمی چیف بن بیٹھے ہیں۔ابھی بھی وقت ہے ۔کہ دونوں مصلحت کے ساتھ معاملات سلجھائیں اور اپنی سر زمیںکو خون کے ساتھ رنگنے سے بچا لیں۔