بیٹی اللہ کی رحمت بن کر اس دنیا میں آتی ہے مگر اس کے آنے کے بعد لڑکی کے ساتھ عمر کے ہر موڑ پر ایک نیا امتحان منتظر ہوتا ہے.اسکی پرورش شروعات ہی سے بہت نگرانی سے کی جاتی ہے.اور اسے بار بار یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ اسے ایک روز بیاہ کر دوسرے گھر جانا ہے.جہا ں نئے لوگ نیا ماحول اور ہر بات مین نیا پن ہوگا اس طرح کی باتیں اپنے بڑوں کی زبانی سن سن کر وہ معصوم پریشان ہوجاتی ہے اور سوچنے لگتی ہے کہ بھلامیں اپنے گھر کو چھوڑ دوسرے گھر کیوں جاؤں .جس طرح یہ گھر میرے بھیّا کا ہے اسی طرح میرا بھی تو ہے.یہ سارے پیچیدہ سوالات اس معصوم کے لئے پریشانی کا باعث بن جاتے ہے.پہلے اسطرح کی باتیں گھر والے بچّی کو صرف چھیڑنے کی غرض سے لاڈ و پیار سے کرتے ہیں.مگر جیسے جیسے بیٹی بڑی ہوتی نظر آتی ہے۔
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو اس طرح کی باتیں گھر میں تھوڑی سنجیدگی سے کی جاتی ہیں.پھر لڑکی خود اس بات سے سمجھوتہ کر لیتی ہے کہ ایک روز مجھے بیاہ کر دوسرے گھر جانا ہے جو مستقبل میں میرا اپنا گھر کہلائے گا اور میں اپنے والدین کی ا یک اہم ذمہ داری ہوں اور اپنے والدین کو خوش رکھنا ہی میرا اولین فرض ہے اسطرح دوسروں کی خوشی کا خیال رکھنا یہ سو چ لڑکی کی زندگی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے اسکے بعد عورت اپنی زندگی میں جس سیڑھی پر بھی قدم رکھتی ہے وہ سیڑھی کسی ناں کسی کی خوشیوں سے جڑی ہوتی ہے.گھر والوں کی اچھی پرورش اور سلیقہ شعاری کی تر بیت ہوتے ہوئے بھی پاس پڑوس اور رشتے دار جس گھر میں بیٹی ہوتی ہے وہاں اپنی نظریں جمائے رکھتے ہیں۔
کہ کب اس لڑکی سے کوئی غلطی یا بھول ہو جائے اور وہ بات کا بتنگڑ بنا کر یہا ں وہاں کہتے پھرے . جب کہ دور جدید کی عورت مرد کے شانہ بہ شانہ چل رہی ہے.اور وہ ساری ترقیا ں حاصل کر رہی ہے جوایک مرد حاصل کرتا ہے.مگر پھر بھی عورت کو آج بھی ا ن ہی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جس طرح کہ صدیوں پہلے دیکھا جاتا تھا.جب کے آج کی عورت دوہری جدوجہد بھر ی زندگی جی رہی ہے .وہ ذریعہ معاش میں اپنے خاوند کی پوری مدد بھی کر رہی ہے اور ماں بن کر امورِخانہ داری سے لیکر گھر کی ذمہ داریوں کو بھی بخوبی سنبھال رہی ہے .پھر بھی اسکی پیدائش سے لیکر اسکی آخری سانس تک اسے کئی طرح کے چھوٹے بڑے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے. یہاں ایک اہم موزوں بہت ہی غور کرنے لائق ہے ،کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس گھر میں دو یا دو سے زائد بیٹیاں ہو تی ہے۔
وہاں اگر بڑی بہن سے پہلے چھوٹی بہن کا کوئی اچھا رشتہ آجائے تو والدین اچھا رشتہ ہے اسے ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہئے یہ سوچ کر اپنی چھوٹی بیٹی کا رشتہ بڑی بیٹی سے پہلے طے کر دیتے ہیں. جو ان کا صحیح فیصلہ ہی ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اس ترقی یافتہ تعلیم یافتہ جدید دور میں جہاں کہ ہر بات کو سمجھنے کی قوت انسان میں آگئی ہے. کئی گھٹیا قسم کی سوچ رکھنے والے لوگ اس بات پرآج بھی جہالت کے دور کی طرح تنقید کرنے سے نہیں چوکتے ہیں.کہ بھئی یہ کیسے ہوگیا۔ بھلا بڑی کو گھر میںبیٹھائے ہیں اور چھوٹی کا بیاہ طے کر رہے ہیں۔
ایسے وقت تنقید کرنے والوں کو یہ تک نہیں سوجھتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیوں بلا وجہ کسی کے گھریلو معاملے میں اپنی ٹانگ اڑا رہے ہیں . بھئی یہ اس کے گھر کا معاملہ ہے،تم اپنا کھاؤ اپنا پہنو. کیوں کسی کے گھر میں تانک جھانک کر کے اپنا اور دوسروں کا بھی قیمتی وقت برباد کرتے ہو. دوسری سب سے اہم بات یہ کہ وہ بڑی بیٹی جس کے پہلے چھوٹی کا رشتہ طے ہوتا ہے . اس بڑی بیٹی کو اس روز سے ایک گہری اور شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے . کہ اس کو چھوڑ بڑی کا رشتہ کیوں طے ہوا کہیں اس میں کوئی خامی کمی یا گمراہی تو نہیں ہے . نعو ذو باللہ یہاں تک کہا جاتا ہے اپنی خود کی بیٹی کو بھلا کر دوسروں کی بیٹی کے لئے کہ یہ بد چلن بد کردار تو نہیں ہے۔
بنا سوچے سمجھے کتنا گھناؤنا الزام کتنی بڑی تہمت اور کتنی غلط بیانی لوگ کر جاتے ہیں. کسی کے گھر کی ر حمت کے لئے. جو بلا شبہ ایک عظیم گناہ ہے . حالانکہ ان کہنے والوں میں کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس لڑکی کے نیک چال چلن سے واقف بھی ہوتے ہیں کہ جس کے بارے میں وہ بول رہے ہیں وہ ایک نیک کردار اوربہت ہی اچھی اور نیک بخت بیٹی ہے۔ افسوس کے اس طرح کی ذلیل گری ہوئی باتیں کرنے والوں میں ایسی گندھی سوچ اس پاکدامن لڑکی کے لئے رکھنے والوں میں زیادہ تراس لڑکی کے قریبی رشتے دار ہوتے ہیں. اللہ رحم کرے ایسے لوگوں پر کیونکہ جو کسی کی پا کدامن بیٹی پر ا تنا گھناؤنا الزام بنا سو چے سمجھے لگاتے ہیں. وہ کھلے عام اللہ کے قہر کو بلاوا دیتے ہیں .اگر کسی گھر میں بڑی بیٹی سے پہلے چھوٹی کا رشتہ طے ہوجائے تو اس کی کئی وجوہات ہمارے سامنے ہوتی ہیں . مگر اچھی باتوں کو سوچنا چھوڑ لوگ گندھگی کو اپناتے ہیں۔
Wedding
رشتے میں تین باتوں پر غور کیا جاتا ہے۔ خوبصورتی۔ تعلیم۔ اور دولت۔ ہمارے نبی ۖنے کہا ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت ان ساری باتوں پر تو غور کیا جائے مگر سب سے زیادہ اہمیت دینی مذہبی تعلیم کو دی جائے۔ آج کے دور میں لوگ رشتہ طے کرتے وقت زیادہ تر اعلیٰ تعلیم پر توجہ دیتے ہیں لڑکا بھلے ہی معمولی پڑھا لکھاہو مگر اس کی اور اسکے والدین کی سوچ ہوتی ہے کہ لڑکی کم از کم (بی اے،بی ایس سی،بی کام )تو ہونی ہی چاہئے . سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ کیسی سوچ ہوتی ہے والدین کی.اور خود اس لڑکے کی جو اپنے سے زیادہ پڑھی لکھی دلہن چاہتا ہے. تو اس طرح ہوتا یوں ہے کہ اگر کسی گھر کی چھوٹی بیٹی بڑی سے زیادہ پڑھی لکھی ہو تو لوگ اپنے بیٹے کا رشتہ چھوٹی کے لئے لے آتے ہیں. یہاں کبھی یوں ہوتا ہے کے لڑکا بارھویں پاس ہے. گھر میں دھن دولت کی کمی نہیں ہے. اور لڑکا بھی قابلِ قبول شخصیت کا مالک ہے۔
تو والدین اپنی پڑھی لکھی چھو ٹی بیٹی کو آئے ہوئے رشتے پر لبیک بول دیتے ہیں. اب اس میں نہ والدین کا قصور ہے. اورنہ ہی اس گھر کی بڑی لڑکی کا . پھر یہ گندھی اور غلط سوچ کیوں کہ بڑی سے پہلے چھوٹی کیوں؟ کبھی ایسے معاملے میں خو بصورتی بھی وجہ بن جاتی ہے،ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور چھوٹی کم پڑھی لکھی مگر غضب کی خو بصورت ہے. تو اس کی خو بصورتی کو دیکھ اسے بڑی سے پہلے اچھا رشتہ آجاتا ہے. اور والدین ایک قابل رشتے کو دیکھ یہ سوچ کر چھوٹی بیٹی کا رشتہ بڑی سے پہلے طے کر دیتے ہیں. کہ بھئی بڑی پڑھی لکھی ہے. اسے بہت رشتے آئیں گے. اب اسے اچھا آیا ہے تو بسم اللہ بول دیتے ہیں .کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے تعلیم یافتہ زمانے میں بھی اگر کوئی کسی کی بیٹی پر تہمت لگاتا ہے تو اس کو اپنی کم ظرفی پرتوجہ دینی ضروری ہے. اور اپنی چھوٹی ذہنیت کو بدلنا ہے. کیونکہ اسے کسی کی بیٹی پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہ تو ہمارا مذہب دیتا ہے۔
نہ آج کا یہ ترقی یافتہ زمانہ، اور یہ تو قدرت کا فیصلہ ہے. کیونکہ ہمارا ہر کام اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اشارے سے اس کے حکم سے ہوتا ہے. اس تعلیم یافتہ زمانے میں کسی کی بیٹی کے لئے ایسی گھٹیا سوچ رکھتے ہوئے اپنے وقت کو برباد کرنے سے بہتر ہے کہ لوگ اپنے گھر کی بیٹیوں اور ان کے مستقبل کے بارے میں سوچیں .اور انہیں اچھی تعلیم و تر بیت سے آراستہ پیراستہ کریں.تاکہ اللہ ربْ العزت آپ کی اس نیکی کے بدلے آپ کی بیٹی کو ایک اچھا اور قابل رشتہ نصیب کرے . کیونکہ سارے رشتے اللہ کے گھر ہی طے ہوتے ہیں۔
M.A.TABASSUM
تحریر: ایم اے تبسم (لاہور) مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان CCP email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102