ملک بھر میں دو دن سے جاری طوفانی بارشوں سے آزاد کشمیر اور پنجاب کے مختلف شہروں میں بیسیوں افراد جاں بحق اور کثیر تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ چھتیں گرنے اور کرنٹ لگنے سے جگہ جگہ اموات ہو رہی ہیں۔ سڑکیں ندیوں کا منظر پیش کر رہی ہیں اور بجلی و ٹرانسپورٹ کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
نکاسی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے سبب مشکلات بڑھ رہی ہیں اور بہت سے علاقوںمیں لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔آزاد کشمیر میں لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے تودے گرنے سے تین پاکستانی فوجی جاں بحق اور کئی افراد لاپتہ ہو گئے ہیں۔دریائو ں میں زبردست طغیانی ہے اور ازلی دشمن بھارت نے مزید پانی چھوڑ دیا ہے جس سے سیلاب کی خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ شدید بارشوں سے ہونے والے نقصانات پر بعض حکومتی ذمہ داران کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ جس قدر زیادہ بارشیں ہورہی ہیں اس کی قطعی طور پر توقع نہیں تھی اس لئے سیوریج سسٹم ناکام ہو گیا اور نقصانات زیادہ ہوئے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ محض اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ زلزلے، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کو کسی طور روکا نہیں جاسکتا البتہ بہتر حکمت عملی اور بروقت انتظامات سے ان نقصانات کو کم ضرور کیاجاسکتا ہے۔ اس لئے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے اور عارضی نوعیت کے اقدامات کرنے کی بجائے اس پورے سسٹم کو درست کرنا چاہیے تاکہ آئندہ کیلئے عوام کی زندگیوں اور قیمتی املاک کی ہر ممکن حفاظت کی جاسکے۔ جہاں تک بھارت کی طرف سے دریائوں میں پانی چھوڑنے کی بات ہے تو محب وطن حلقے شروع دن سے کہتے آرہے ہیں کہ پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرنے والا غاصب بھارت بغیر جنگ لڑے پاکستان کو فتح کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ اسرائیل، امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں سے مقبوضہ کشمیر میں جنگی بنیادوں پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے تاکہ جب چاہے پانی روک کر وطن عزیز پاکستان میں خشک سالی اور جب چاہے دریائوں پر پانی چھوڑ کر سیلاب کی صورتحال پیدا کر دے۔
گذشتہ برس بھی اس کے بہت زیادہ پانی یکدم چھوڑ دینے سے سیالکوٹ، گوجرانوالہ، کامونکی، مریدکے اور دیگر کئی شہروں میںلاکھوں ایکڑ پرکھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیںاور ملک کو اربوں روپے مالیت کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ ان علاقوں میں اتنا پانی ہم نے کبھی زندگی میں نہیں دیکھا اور نہ بڑوں سے کبھی سنا ‘ جتنا زیادہ پچھلے سال بھارت کی مہربانیوں سے آیا اور لاہور کے نواحی علاقوں میں کئی دنوں تک کشتیاں چلتی رہیں۔اب ایک بار پھر وہی صورتحا ل پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے مگر افسوس کہ بھارت کی طرف سے منظم منصوبہ بندی کے تحت دریائوں میں پانی چھوڑنے کی وجہ سے فصلوں، گھروں اور کھیتوں کھلیانوں کی تباہی ہر سال کا معمول بنتی جارہی ہے لیکن حکمران صحیح معنوں میں اس مسئلہ کو بھارت کے سامنے اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی دریائوں پر بنائے جانے والے متنازعہ ڈیم وطن عزیز کے لئے دفاعی لحاظ سے بھی سخت نقصان دہ ہیں اس لئے حکومت کو بھارتی آبی دہشت گردی کے مسئلہ پر سنجیدگی سے سوچناچاہیے اور اس کے تدارک کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
بہرحال اس وقت ایک طرف جہاں پورے ملک کے عوام کی نگاہیں ممکنہ سیلاب کے خطرات کی جانب مرکوز ہیں اور لوگ سخت فکر مند ہیں وہیں دوسری جانب پاکستان کا ہمسایہ ملک چین’ جس کی دوستی کو شہد سے میٹھی ، ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہونے سے تشبیہہ دیاجاتا ہے اس کے صدر ژی جن پنگ نے اپنا دورہ پاکستان موخر کر دیا ہے۔ان کے دورہ پاکستان کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی تھی اس لئے یہ خبر ہر پاکستانی پر بجلی بن کر گری ہے۔ اگرچہ اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے باعث مالدیپ اور سری لنکا کے صدور کے دورہ پاکستان ملتوی ہونے کے بعد چینی صدر کے دورہ پر بھی بے یقینی کے بادل منڈلا رہے تھے لیکن اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ شاید مسئلہ کا کوئی حل نکل آئے اور یہ دورہ ملتوی نہ ہو مگر افسوس کہ ایٹمی پاکستان کو دو پارٹیوں کے لیڈران نے چند ہزار افراد کے ساتھ یرغمال بنا رکھا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہور ہی ہے مگر چینی صدر اور دوسرے ممالک کے سربراہان کے دورے ملتوی ہوں، ملک کا کاروبار تباہ اور اس کی معیشت کا ستیاناس ہو جائے انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے۔
Xi Jinping
ہم ماڈل ٹائون میں پولیس اور مظاہرین میں تصادم کے دوران ہونے والے جانی نقصان کو بہت بڑا ظلم سمجھتے ہیں اور ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں سخت سزا ملنے کے حق میں ہیں مگر اس افسوسناک واقعہ کے بعد جو طرز عمل اختیا ر اور ملک کوجس طرح نقصانات سے دوچار کیاجارہا ہے اسے بھی کسی صورت درست نہیں سمجھتے۔ چینی صدر نے رواں ماہ میں ہی بھارت اور سری لنکا کا بھی دورہ کرنا ہے اس لئے ان کے دورہ پاکستان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اگر چہ یہ بات اپنی جگہ بہت زیادہ اہم ہے کہ چینی صدر کے دورہ کے دوران تیس ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہونا تھے جس سے پاکستان کی معیشت میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی مگران کے دورہ سے اسلام دشمن قوتوں خاص طور پر بھارت کو پاکستان اور چین کی لازوال دوستی اور مضبوط دفاع کا جو پیغام جاتا ہے اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے جس سے کسی طور انکار نہیں کیاجاسکتا۔ اسلام آباد میں سیاسی دھرنوں کے باعث حکومت کی جانب سے تجویز دی گئی تھی کہ چینی صدر لاہور آجائیں اور یہاں آکر ملاقاتیں کر لیں مگر چین کی سکیورٹی ٹیم نے اس حوالہ سے سکیورٹی کلیئرنس نہیں دی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چینی سکیورٹی ٹیم کا کہنا ہے کہ لاہور ایک گنجان آباد شہر ہے اسلئے سکیورٹی کے باعث چینی صدر کا یہاں دورہ پرآنا درست نہیں ہے۔چینی صدر کے دورہ کے دوران پاکستان اور چین کے مابین ہائیڈل، کول اور سولر پاور سے بجلی پیدا کرنے کے سولہ منصوبوں پر مختلف مراحل کے آغاز کے معاہدوں پر دستخط ہونا تھے جس کے نتیجہ میں اگلے چار سال میں سسٹم میں 21000میگاواٹ سسٹم بجلی کا اضافہ ہونے کا امکان تھا۔پنجاب میں ساہیوال کے مقام پر 260میگاواٹ کے تین کول پاور پلانٹ لگانے کے جاری منصوبوں کی مالی معاونت کے حوالہ سے معاہدوں کے علاوہ لاہو رمیں علی ٹائون سے ریلوے اسٹیشن چلائی جانے والی اورنج ٹرین کے معاہدہ پر دستخط کی تقریب ہونا تھی۔
China,Pakistan
اسی طرح مظفر گڑھ اور رحیم یار خاں میں لگائے جانے والے سولر پراجیکٹس اور بہاول پور کے قائد اعظم سولر پارک کیلئے سپانسر آئی پی پی ملنے کی صورت میں اس پر بھی پیش رفت کا امکان تھا۔اطلاعات کے مطابق اس وقت ساہیوال میں آئی پی پیز کے تعاون سے لگائے جانے والے سولر پراجیکٹس کی ایک ہزار گز چاردیواری مکمل کی جاچکی ہے اور ا سکے بنیادی انفراسٹرکچر پر کام تیز کر دیا گیا ہے جبکہ اورنج لائن پراجیکٹ کی نیلامی کے عمل کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے تاہم چینی صدر کا دورہ موخر ہونے سے توانائی اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے درجنوں معاہدے التواء میں پڑ گئے ہیں۔یہ بھی کہاجارہا ہے کہ چینی سفیر نے بھی حکومت سے ریڈ زون خالی کرانے کی درخواست کی تھی جہاں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے۔ اسی طرح دھرنے کے قائدین کو بھی دوست ملک کے سفارتخانے کی جانب سے مذکورہ علاقہ خالی کرانے کا پیغام پہنچایا گیا تھالیکن اس پر مثبت ردعمل کا اظہا رنہیں کیا گیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس ساری صورتحال کے دونوں فریق ذمہ دار ہیں انہیں انا پرستی کے خول سے باہر نکل کر ملکی سلامتی و استحکام کیلئے سوچناچاہیے۔چینی دفتر خارجہ نے اپنے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہونے کی تصدیق سے معذرت کی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور دھرنا پارٹیاں اپنے موقف میں لچک پیدا کریں اور مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ برادر ملک چین کے صدر ژی جن پنگ کے دورہ کی منسوخی سے عالمی سطح پراٹھائی جانے والی شرمندگی سے بچا جا سکے۔