غزہ میں اسرائیل کی بدترین رسوائی

Israel

Israel

غزہ پر اسرائیلی ننگی جارحیت اور دہشت گردی کا سلسلہ اب تھم گیا ہے۔ حماس اور اسرائیل کے مابین طویل جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ معاہدے میں منظور ہونے والی بیشتر شرائط وہ ہیں جو حماس کی پیش کردہ تھیں۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 2100ء سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جن میں 570 معصوم بچے تھے۔ اس عرصے میں صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی پر مجموعی طور پر 5263 فضائی، زمینی اور بحری حملے کئے۔غزہ پر اسرائیل نے اس قدر بارود برسایا کہ اس کی طاقت 6ایٹم بموں سے بھی زیادہ تھی۔اسی لئے اقوام متحدہ سمیت عالمی امدادی ادارے کہہ رہے ہیں کہ غزہ کی تعمیر نو کے لئے 15سے 20سال کا عرصہ درکار ہے لیکناس جنگ میںسرائیل نے خود ہی دنیاکے سامنے واضح کر دیا کہ مشرق وسطیٰ میں ”اصل دہشت گرد” کون ہے۔

امریکہ، برطانیہ، فرانس اور یورپی یونین کی حکومتیں بھلے ہی اب بھی اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہوں یا کرنے پر مجبور ہوں مگر ان کے عوام بلکہ پوری دنیا میں عوامی رائے اسرائیل کے خلاف ہوئی ہے ۔اس کا اندازہ اس سلسلے میں دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں سے کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل میں وزیراعظم نیتن یاہو کا قافیہ تنگ ہو رہا ہے۔ ”مضبوط ملک ،مضبوط لیڈر” کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آنے والے نیتن یاہو کی ساری مضبوطی ”ہوا” ہو چکی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ غزہ جنگ کا سب سے بڑا خمیازہ یاہو کو بھگتنا پڑے گا تو درست ہے۔ خود 52فیصد اسرائیلی تسلیم کر رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں ایک بار پھر ناکام رہا ہے۔ یہ اعتراف جنگ بندی کے بعد اسرائیلی اخبار ہارٹنر کے ایک سروے میں ہوا ہے۔ اسرائیل کے داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے ”شن بیٹ” کے سابق سربراہ ”یووال ڈیسکن” نے کھل کر کہا ہے کہ حماس کے ساتھ معاہدہ صہیونی ریاست کی شکست کے مترادف ہے۔ فلسطینی شرائط مان کر تسلیم کیا گیا ہے کہ حماس کا موقف درست ہے اور غزہ پر حملہ ایک بڑی غلطی تھی۔

اس حوالے سے اسرائیل میں سامنے آنے والے رائے عامہ کے تازہ جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی فوج کی پچاس روز تک جاری رہنے والی وحشیانہ جارحیت پر صہیونی حکومت کو نہ صرف اندرونی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے بلکہ جنگ میں فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں شرمناک شکست پر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی عوامی مقبولیت میں غیرمعمولی کمی آ گئی ہے۔ اخبار ”ہارٹز” کی ویب سائٹ پر صہیونی وزیراعظم کی عوامی مقبولیت کے حوالے سے کئے گئے تازہ آن لائن سروے میں بتایا گیا کہ غزہ جنگ سے قبل نیتن یاہو کی عوامی مقبولیت کا گراف 52 فیصد تھا جواب 40 فیصد پر آ گیا ہے۔سروے میں بتایا گیا ہے۔

جنگ سے قبل نیتن یاہو کی بعض پالیسیوں اور اقدامات سے تقریباً 77 فیصد یہودی مطمئن تھے لیکن اب اس میں 30 فیصد تک کمی آ چکی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کی عوامی مقبولیت میں کمی کی بنیادی وجہ غزہ میں جنگ میں شرمناک شکست ہے۔ عبرانی ٹی وی کی ویب سائٹ پر کئے گئے عوامی سروے میں 59 فیصد رائے دہندگان نے غزہ میں اسرائیل کی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
” غزہ میں کون جیتا؟” یہ سوال جب اسرائیل کے وزیر دفاع اویگڈور لیبرمین سے ایک اخبار نے کیا تواس کا جواب تھا کہ ”اس سوال کا پوچھا جانا ہی اپنے آپ میں حقیقت کی غمازی کرتا ہے کیونکہ جب نتیجہ واضح ہو تو اس طرح کے سوالات کی ضرورت نہیں پیش آتی۔

Terrorists

Terrorists

لیبرمین کے مطابق مجھے یہ بات بہت پریشان کر رہی ہے کہ محض 20 ہزار افراد پر مشتمل” دہشت گردوں” کا گروہ (حماس) نہ صرف 50دن تک مشرق وسطیٰ کی سب سے طاقتور فوج کے سامنے ڈٹا رہا بلکہ ابھی بھی غزہ میں برسراقتدار ہے۔ اسی سوال کا جواب مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اور اپنی حق بیانی کے حوالے سے پوری دنیا میں معروف سینئر مغربی کالم نگار رابرٹ فسک نے” دی انڈیپنڈنٹ ”میں اپنے مضمون میں اس طرح دیا کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کیا جانا چاہئے مگر وہ غیر مسلح نہیں ہوا۔

اسرائیل کا کہنا تھا کہ اسے تباہ و برباد کر دیا جائے گا مگر وہ نہ تباہ ہوا اور نہ ہی برباد۔ اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ غزہ کی تمام سرنگوں کو تباہ کر دیا جائے گامگر وہ اب بھی موجود ہیں۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس کی جانب داغے جانے والے تمام راکٹوں کو ختم کر دیا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ باالفاظ دیگر غزہ پر جنگ تھوپنے والا اسرائیل تباہی و بربادی مچانے میں تو کامیاب رہا مگر اپنا ایک بھی مقصد حاصل نہیں کر سکا۔ آخری حملے میں حماس نے اسرائیلی فوجی مارا تو اسرائیل اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ہاں ،اسے حماس کے مطالبات کے آگے سر تسلیم خم ضرور کرنا پڑا۔

وہ حماس جسے وہ غیر مسلح کرنا چاہتا ہے ، کے سامنے مذاکرات کی میز پر اسے اسی تنظیم کے لیڈروں سے بالواسطہ ہی سہی مگر گفتگو کرنا پڑی جسے ختم کرنے کے لئے اس نے جنگ چھیڑی تھی۔اسے کہیں نہ کہیں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ حماس اس کے ہم پلہ اور اصل مدمقابل ہے۔ اسرائیل حماس کو نہ تو اپنی فوجی طاقت سے غیر مسلح کر سکا نہ سفارتی اقدام سے۔ حد تو یہ ہے کہ عام شہریوں کا قتل عام جس کا سبب بادی النظر میں اسرائیل کے خلاف حماس کی کارروائیاں ہیں ،وہ بھی فلسطینی شہریوں کو حماس کے خلاف متنقر نہ کر سکا بلکہ اس کی عوامی مقبولیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق غزہ میں مزاحمت کے طریقہ کار کا تجربہ مغربی کنارہ میں بھی اپنانے پر غور ہو رہا ہے۔

مذاکرات کی میز پر اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرنے کی اپنی شرط تو نہیں منوا سکا البتہ اسے غزہ کے محاصرے میں نرمی پر راضی ہونا پڑا۔ یعنی کل تک غزہ کی صرف دو کراسنگ کھلی ہوا کرتی تھیں اور ان پر بھی انتہائی سختی برتی جاتی تھی مگر اب اسرائیل طویل مدتی جنگ بندی کیلئے پانچوں چوکیاں کھولنے پر راضی ہو گیا۔ مصر کی سرحد پر موجود رفح کراسنگ غزہ کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے جو اسرائیلی ایما پر طویل عرصے سے بند تھی تاہم اب اس معاہدے کی رو سے آئندہ ایک مہینے میں فلسطینی اور مصری حکام کے درمیان بات چیت اور شرائط طے ہونے کے بعد اسے بھی کھول دیا جائے گا۔ غزہ کے ساحل پر فلسطینی ماہی گیروں کو مچھلیاں پکڑنے کی اجازت نہیں تھی لیکن اب وہ مچھلیاں پکڑ سکیں گے۔

غزہ میں اسرائیل کو کئی محاذوں پر شکست کا سامنا ہواہے۔ عالمی سطح پر اسرائیل بدنام ہوا تو اس بار متعدد امن پسند یہودیوں نے بھی اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔اسرائیل سے معاہدے کے بعدحماس اور اسلامی جہاد کے ہزاروں مجاہدین نے غزہ میں بار بار فتح پریڈ کا انعقاد کیا ہے۔اس موقع پر مجاہدین سے غزہ کے لوگ بے پنا ہ اظہار عقیدت کرتے رہے۔ان مواقع پر مجاہدین نے از سر نو مسلح ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی غزہ میں کبھی بھی نہیں جیت سکتا۔ القدس بریگیڈ کے ترجمان ابو حمزہ نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دنیا بھر کے اپنے حمایتیوںکا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اگلے مرحلے کیلئے مزید مسلح ہوں گے۔

ہم نے اسلحے کی تیاری نہیں روکی جو دوران بمباری بھی جاری رہی۔ جنگ بندی کے معاہدہ کے بعد حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف حالیہ مزاحمتی جہادی جدوجہد نے تنازعہ فلسطین میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ انہوں نے مغربی غزہ میں واقع فلسطینی پارلیمنٹ کے سامنے پرہجوم فتح پریڈسے خطاب میں کہا کہ ساری دنیا ہماری جیت کی گواہ ہے اور یہ معاہدہ محض غزہ کا نہیں بلکہ القدس، مسجد الاقصیٰ اور پوری فلسطینی سرزمین کی آزادی کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کا ثمر ہے۔ غزہ میں یہ کامیابی دراصل جہاد کی کامیابی ہے جس سے اہل فلسطین دل و جان سے جڑے ہوئے ہیں۔ اب ساری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کو بھی اس جہاد کی جانب آنا اور بڑھنا ہو گا تاکہ انہیں آزادیاں ملیں اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو سکے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین