اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) اور حکومت کے درمیان مذاکرات مسلسل دوسرے دن بھی معطل رہے۔ پی اے ٹی کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نے جمعہ کے روز بتایا ’’دو دن گزر گئے ہیں اور حکومت کی طرف سے ہمارے مطالبات کی منظوری کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔‘‘ Nپی اے ٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات بدھ کے روز حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک جرگے کےاقدام کے ذریعے بحال کیے گئے تھے۔
اس پہلے مرحلے کے بعد سے دونوں فریقین کے درمیان کوئی براہِ راست رابطہ نہیں کیا گیا، اگرچہ جمعرات کو جرگے کے اراکین نے ایک قدم بہ قدم طریقہ کار تشکیل دیا تھا، ان کا اراد ہ تھا کہ اس کے ذریعے مسئلے سے نمٹا جائے گا۔ متفقہ لائحہ عمل کے تحت حکومت کی جانب سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ پی اے ٹی کے مطالبات پر اپنے تحریری جواب فراہم کرے گی۔
پی اے ٹی کا ایک دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ ہے، جس میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا ہے، اور اس کے ساتھ سماجی اصلاحات پر مبنی ایک تفصیلی فہرست ہے۔ پاکستان عوامی تحریک نے مذاکراتی عمل میں پیش رفت کے لیے اپنا بنیادی مطالبہ شہباز شریف کے استعفے کو قرار دیا ہے۔ پی اے ٹی ان پر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں فائرنگ کے واقعہ میں ملؤث ہونے کا الزام عائد کرتی ہے۔ پی اے ٹی کے مذاکرات کار نے کہا کہ حکومت کا جواب اب تک ہمارے پاس نہیں پہنچا ہے۔