خون میں ڈوبا فلسطین

Palestine

Palestine

اس قوم کی کیا حرماں نصیبی ہے کہ اس بار چشم فلک نے انوکھا منظر دیکھاکہ یہ قوم اپنی آزادی کا دن بھی پورے اتفاق و اتحاد اور یکسوئی و مسرت کے ساتھ نہ منا سکی۔ ا س بار 14 اگست کا سورج جب سے طلوع ہوا تو یوں لگتا ہے کہ وہ دن قیامت کے دن کی طرح طویل تر ہوگیا ہے… اور ختم ہونے کے دور دور تک آثار ناپید نظر آئے۔ اور وہ بھی ایک ایسے عالم میں جبکہ دنیا کا عالمی غنڈہ اسرائیل کسی فیلِ بدمست کی طرح غزہ کے معصوم مسلمانوں کی ایک ایک بوٹی کو نوچ رہا تھا۔ پورا رمضان اور عیدکے دنوں میں بھی اس وحشی درندے نے اپنی درندگی کا کھیل ایک لمحے کیلئے بھی نہ بند کیا اور وحشیانہ بمباری کرکے غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھا۔

ا س نے نہ معصوم بچوں کو دیکھا نہ عورتوں ‘ نہ بوڑھوں اور نہ مریضوں کو۔ ہسپتالوں اور بچوں کے ان اداروں تک کو نہ بخشا گیا جو حماس یا کسی ”انتہا پسند اسلامی تنظیم” کے تحت نہیں بلکہ ان غنڈوں کے بنائے ہوئے اپنے ادارے اقوام متحدہ کے تحت چل رہے تھے… حیرت کی بات تو یہ ہے کہ غزہ کے معصوم بچوں اور عورتوں کی آہوں اور چیخوں نے پوری دنیا کے ضمیر کو تو ہلا کر رکھ دیا …جس نے بھی یہ خونی مناظر دیکھے اور سنے’ وہ تڑپ کر ان مظلوموں کی حمایت میں باہر نکل آیا’ یورپ اور امریکہ کا ہر زندہ ضمیرشخص اسرائیل کے خونی کھیل کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوگیا۔

عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس اسرائیلی درندگی کے خلاف چیخ پڑے۔ بھارتی مسلمان جو ہندو کے جبر سے ڈر کر کبھی اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف کم ہی آواز بلند کرتے ہیں’ وہ بھی غزہ کے مسلمانوں کے اوپر ڈھائی جانے والی اس قیامت صغریٰ کے خلاف چپ نہ رہ سکے اور انہوں نے پورے ملک میں اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف زبردست جلسے جلوس کئے’ یہاں تک کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی طرف سے اسرائیلی مصنوعات کا بھی ملک گیر بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی گئی۔

مظاہرین نے اسرائیلی کمپنیوں کے کولڈ ڈرنکس کو نالیوں میں بہا کراو رمصنوعات کے پوسٹر نیز علامتی پرچم کو نذر آتش کرکے غزہ کے شہیدوں کو خراج عقیدت او رصہیونی ریاست کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ کی مذمت کی۔ یہی حال مقبوضہ جموں کشمیر میں رہا۔ آٹھ لاکھ فوج کے گھیرے میں گھرے ہوئے کشمیری جن کو اپنے زخموں سے فرصت نہیں’ وہ اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی میں اہل پاکستان سے بھی آگے نظر آئے۔

غرض اسرائیل کی خون آشامی کے خلاف اپنے غیر تو سب چلائے’ اور تو اور خود اسرائیل کے اندر سے انسانیت کی معمولی رمق رکھنے والے اسرائیلی یہودی بھی اس سربریت کی مذمت کرنے پہ مجبور ہوگئے لیکن وائے افسوس! غزہ کے ان مظلوم مسلمانوں ‘ بچوں’ عورتوں’ مریضوں او ربوڑھوں کی دلدوز چیخوں کا کوئی اثر نہ ہواتوہمارے پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں پر … ہاں وہی پاکستان جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے… جو عالم اسلام کا پاسبان سمجھا جاتا ہے… جو عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے… جس کے پاس دنیا کی ساتویں بہترین فوج ہے اور جو کبھی اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لئے کبھی اپنے طیارے اور فوج تک بھیج دیاکرتا تھا… نجانے اب کیا عالمی سازش ہوئی کہ کہاں فلسطینیوں کی عملی مدد کرنے والا پاکستان او رکہاں یہ نوبت کہ فلسطینیوں کے حق میں آواز تک بلند کرنے سے بھی ہمارے ملک کے سیاستدان و حکمران معذور رہے۔

وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہمارے ان سیاستدانوں کی معذوری و مجبوری کیا تھی… کیا وہ دنیا کے کسی اور بڑے عظیم مشن میں مصروف تھے… کیا وہ اسرائیل سے بھی کسی بڑی آفت اور کسی بڑے فرعون کو روکنے میں اپنے دن اور اپنی راتوں کی توانائیاں صرف کئے ہوئے تھے… یا وہ کوئی نیکی کا اس سے بھی بڑا اور عظیم کام کر رہے تھے جس کی زبردست مشغولیت انہیں دنیا کے کسی دوسرے ظالم کا بڑے سے بڑا ظلم بھی اپنی طرف توجہ دلانے میں کامیاب نہ ہو سکا… حاشا و کلا … ہمارے ان سیاستدانوں کی ان مجبوریوں اور معذوریوں میں سے کوئی بھی معذوری و مجبوری ایسی نہ تھی… ہاں! صرف ایک ہی مجبوری تھی … ایک ہی جنگ تھی۔

ایک ہی معرکہ عظیم تھا جس کی مشغولیت نے انہیں دنیا کے ہر دوسرے معاملے سے بے نیاز و لاتعلق کردیا تھا اور وہ تھا … کرسی و اقتدار کا معرکہ…… یہ معرکہ شاید قیامت کے قریب کی آخری جنگ ملحمة الکبریٰ تھی یا جنگوں کی ماں ام المحارب (Ormegadon) تھی جس کی وجہ سے کسی کے ہوش سلامت نہ تھے۔ ایک اقتدار کسی صورت ہاتھ سے نہ جانے کے درپے تو دوسرا اقتدار کی کرسی ہر صورت خود بلا شرکت غیرے چھیننے اور جھپٹنے کے درپے ……… اس جنگ میں ملک کا اور عالم اسلام کا کتنا بڑا نقصان ہو گیا’ کسی کو کوئی پروا نہیں رہی……… ملک کو ان دھرنوں اور مارچوں کی ”برکت” سے 8 کھرب کے نقصان کا ٹیکہ لگ گیا’ عوام کے روز مرہ امور اور کاروبار سب تباہ ہوکر رہ گئے۔

Israel

Israel

اسرائیل کے ساتھ ساتھ ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی پاکستان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر لائن آف کنٹرول پربلاناغہ جارحیت کرنے لگا ‘دھرنے میں عورتوں او ربچوں کو ڈھال بنا کر استعمال کرنے والوں کو ان کی حالت زار پربھی ذرا ترس نہ آیا ۔اپنے لیڈرز سے ان کی عقیدت کا بھرپور استحصال کیا جاتا رہا…… کس لئے… صرف اور صرف اپنی کرسی کے لئے… پھر اس پر مستزاد یہ کہ یہ لیڈرز ایسا ”نیا پاکستان” بنانے کے عظیم مشن میں مصروف نظر آئے کہ جس میں قوم کی بیٹیوں کو روزانہ پوری پوری رات نچا کر نئے پاکستان کا نقشہ پیش کیا جا رہا تھا’ ایسے انقلاب کا نقشہ دکھایا جا رہا تھا جس کے لیڈریوں تو اپنے لئے شیخ الاسلام کے لقب سے کم پر راضی نہیں لیکن اپنے انقلاب کے لئے اسلامی کا لفظ بھی انقلاب کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے۔

دوسری طرف حکمران بھی صرف اور صرف ایک ہی مشن پر کاربند کہ کرسی بچ جائے باقی چاہے جو مرضی منوالو… کاش ہمارے حکمران اس بحران پر غور کرتے کہ یہ سب کچھ ان کی ان وعدہ خلافیوں کانتیجہ تو ہے جو وہ اللہ اور عوام سے کرکے آئے تھے۔ اگر حکمران دھرنے کے لیڈروں کی منتیں کرنے کی بجائے ایک بار اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتے’ اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لیتے او رپاکستان کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے مشن پر کاربند ہوجاتے جس کا وہ حلف اٹھا کر منتخب ہوتے ہیں تو اللہ عزوجل کے لئے کوئی مشکل نہ تھاکہ وہ اس بحران اور آزمائش کو ان کے لئے فوراً ٹال دیتا۔

دوسری طرف دھرنے کے لیڈروں کو بھی کوئی عزت اور کامیابی نصیب نہ ہو سکی’ اس لئے کہ وہ بھی پاکستان کے قیام کے اصل مقصد اسلام سے بہت دور… صرف اپنے ذاتی مفاد او رکرسی کے حصول کی جنگ میں بدمست ہوگئے۔ اسلام سے جب دوری او ربغاوت ہوگی تو پھر حقیقی عزت و کامیابی کیسے مل سکتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے کہ حکمران اور سیاستدان اللہ کی بارگاہ میں جھک کر اپنی اپنی غلطیوں کی معافی مانگیں۔ پاکستان کو اسلام اور عالم اسلام کا پاسبان اور قلعہ بنانے کا حقیقی عزم کریں۔ اپنے ایجنڈے اور مطالبات میں اسلام کو سب سے پہلے اور اوپر رکھیں۔ ملک سے غیر اسلامی ثقافت’ غیر اسلامی قوانین ‘ غیر اسلامی تعلیم’ مخلوط ماحول’ سود’ فحاشی’ جوا اور دیگر غیر شرعی امور کو ختم کرنے کا عزم حقیقی کریں اور پاکستان کو اس کے قیام کے اصل مقصد… لا الہ الا اللہ … کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔ امت مسلمہ کے اصل مسائل مسلمانوں پر کافروں کے ظلم و ستم اور ان کے تسلط کا خاتمہ اور ان کے کافرانہ نظاموں سے آزادی ہے۔ ایک مسلمان لیڈر کا سب سے بڑا ایجنڈا یہی ہونا چاہئے۔

Pakistan

Pakistan

افسوس یہ کہ آج حزب اقتدار و حزب اختلاف کسی سیاسی پارٹی کا یہ اسلامی ایجنڈا نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم پر اللہ کی ناراضگی بار بار بحرانوں کی صورت میں نازل ہوتی ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صور ت میں اللہ اپنی ناراضگی کا ایک سخت کوڑا ہم پر برسا چکے ہیں…… اور اگرہم نے اپنا رویہ نہ بدلا اور بحیثیت مسلمان سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو اللہ کی ناراضگی کا کوئی اور سخت کوڑا بھی ہم پر برس سکتا ہے…… اللہ ہمیں سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے … آمین

تحریر:قاضی کاشف نیاز