بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آزاد کشمیر کے سیلاب متاثرین کیلئے پاکستان کو امداد کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستانیوں کی مدد کیلئے تیار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے دورہ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے نریندر مودی نے بھارتی ریاستوں کی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ آگے بڑھیں اورمقبوضہ کشمیر کے سیلاب میں گھرے متاثرین کی مدد کریں۔ بھارتی وزیراعظم کی اس پیش کش پر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاہے جتنی بھی آفت آجائے ہماری امیدوں کا مرکز اسلام آباد ہی ہے اور اگر بھارت کچھ دینا ہی چاہتا ہے تو مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ان کا حق خود ارادیت دے ۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی مقبوضہ کشمیر میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر گہرے افسوس اور رنج و غم کا اظہا رکیا اور پاکستان کی جانب سے ہر ممکن تعاون کی پیش کش کی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں امسال سیلاب سے غیر معمولی نقصانات ہوئے ہیں۔ اسے 1969کے بعد کا سب سے بڑاسیلاب قرار دیا جارہا ہے جس میں سینکڑوں دیہات مکمل طور پر ڈوب گئے’ ہزاروں شدید متاثر ہوئے ہیں۔ سینکڑوں کلومیٹر طویل سڑکیں اور پاور لائنز تباہ ہو گئیں۔ ایک سو سے زائد چھوٹے بڑے پل بہہ گئے۔ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجدومدارس سمیت ہزاروں عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔جنوبی کشمیرکا علاقہ سب سے زیادہ متاثرہوا ہے جہاں متعدد علاقوں کا ہیڈکوارٹرز سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔خراب موسم کے باعث بارہ ستمبر تک کیلئے تمام حج پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ ہزاروں افراد تاحال اپنے گھروں کی چھتوں اور پہاڑیوں پر بے سروسامانی کے عالم میں امداد کے منتظر ہیں۔
بارشوں اور سیلاب سے ہر طرف ہنگامی صورتحال ہے۔ دریائے جہلم میں پانی کی سطح خطرے کے نشان سے چونتیس فٹ اوپر تک پہنچ چکی ہے۔ یہی صورتحال دوسرے دریائوں اور ندی نالوں کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سیلاب کی وجہ سے کثیر تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں جن کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔لوگوں کا قیمتی سامان اوربھیڑ بکریاں پانیوں کی نذر ہو گئی ہیں۔ ادھر پیر پنچال کے بالائی علاقوں اوردراس و کرگل میں برفباری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
سیلاب متاثرین کیلئے اگرچہ بھارتی فوج اور فضائیہ کی جانب سے بھی امدادی سرگرمیوںمیں حصہ لینے کا دعویٰ کیاجارہا ہے مگر زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔ چونکہ سیلابی ریلوںنے بھارتی فوج اور بی ایس ایف کی تنصیبات اور بنکروں کو بھی سخت نقصان پہنچایاہے اس لئے ان کی پہلی ترجیح بھارتی فوج اور سیلاب متاثرہ ہندو ہیں اس لئے عمومی کشمیریوں کیلئے ان کی کوئی خاص امدادی سرگرمیاں منظر عام پر نہیں آسکی ہیں۔خراب موسم کی وجہ سے بہت سے دورافتادہ علاقے ایسے ہیں جہاں ابھی تک امدادی سرگرمیاں شروع نہیںکی جاسکی ہیں۔ توسہ میدان جسے بھارتی فوج کشمیریوں کے سخت احتجاج کے باوجود خالی کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتی اور ان کی مشقوں کے دوران بکھرے ہوئے گولہ بارود سے اکثر حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں وہاںڈیڑھ سو سے زائد افراد پھنسے ہوئے ہیں لیکن انہیں ابھی تک وہاں سے نکالانہیں جاسکا ہے۔
سیلاب زدہ علاقوں کی صورتحال یہ ہے کہ گہرے پانیوں میں ڈوبنے والے مکانات میں سے کسی کی ٹین کی چھت نظر آرہی ہے تو کسی کی بالائی منزل دکھائی دیتی ہے۔ خوبصورتی کے وہ نظارے جو آنکھوں کو خیرہ کر دیتے تھے آج وہاں وحشت ناک ماحول ہے اورسری نگر کی کثیر منزلہ عمارتوں کو بھی پانیوںنے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لوگوں کو کھانے پینے کیلئے کچھ نہیں مل رہا۔ وہ مایوسی کے عالم میں اپنے پیاروں کی مدد کیلئے پکار رہے ہیں مگرریاستی حکومت کی حالت یہ ہے کہ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سیلاب سے تباہی کے ایک ہفتہ بعد بولے ہیں کہ لوگ افراتفری کا شکار نہ ہوں اور گھبرائیں مت! بلکہ گھروں کی چھتوں پر امداد کا انتظار کریں جلد انہیں وہاں سے نکال لیا جائے گا۔
مقامی کشمیریوں کا کہنا ہے کہ انہوںنے اپنی ساری زندگی میں اس قدر شدید سیلاب کبھی نہیں دیکھا اور اگر وہ اس قیامت خیز صورتحال سے جان بچانے میںکامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ا س سانحہ کو عمر بھر بھلا نہیں سکیں گے۔ حریت کانفرنس سمیت مقبوضہ کشمیر کی تمام تنظیموںنے سیلاب متاثرین کی بروقت مدد نہ کرسکنے پر بھارت سرکار او ر ریاستی حکومت پر سخت تنقید کی اور کہا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ اس نوعیت کی تباہ کن آفت سماوی سے نمٹنے کیلئے ریاست کے پاس وسائل میسر نہیں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے شدید بارشوں وسیلاب کا بتانے کے باوجود سرکار نے بھی اس سلسلہ میں ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے اور لوگوں کو اصل حقائق سے آگاہ نہیں کیاگیا جس پر ہزاروں لوگ گہرے پانیوںمیں پھنس گئے جنہیں تاحال نکالا نہیں جاسکا ہے۔
Kashmiris
ایسی صورتحال میں کشمیری تنظیموں،ا ن کے قائدین اور عام کشمیریوں کی جانب سے لازوال قربانیوں اور جذبات کا اظہار دیکھنے میں آرہا ہے۔ کشمیری رہنما پانیوں سے گزر کر متاثرین تک پہنچ کر ان کی دلجوئی کر رہے ہیں تو سیلاب سے محفوظ رہنے والے کشمیری اپنے بھائیوں کی مدد کیلئے تمامتر وسائل بروئے کار لارہے ہیں۔سیلاب کے بعد کشمیری عوام ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی اور مودی سرکار سے اور زیادہ نالاں دکھائی دیتے ہیں ۔ کشمیری جماعتوں کی سخت تنقید کے بعد اتوار کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کادورہ کیاتو وہاں بھی سیلاب متاثرین کی امداد کے اعلان کے ساتھ ساتھ سیاست کرنے سے باز نہیں آئے اور پاکستان کو آزاد کشمیر کے سیلاب متاثرین کیلئے امداد کی پیشکش کر دی۔
ان حالات میں کہ جب مقبوضہ کشمیر کے سیلاب متاثرہ لوگ پانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے پاس رہائش ہے اور نہ کھانے پینے کیلئے کچھ موجود ہے بھارتی وزیر اعظم کی پاکستان کو امداد کی پیشکش خود مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے زخموں پر بھی نمک چھڑکنے کے مترادف اور کھلی شرانگیزی ہے۔ جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید نے درست کہا ہے کہ جو بھارت مقبوضہ کشمیر میں سیلاب متاثرہ کشمیریوں کی مدد نہیں کر سکتا اور بھارت کی مختلف ریاستی حکومتوں سے امداد کی اپیلیں کر رہا ہے وہ پاکستانیوں کی کیا مدد کرے گا جس کے وجود کو بھی اس نے آج تک تسلیم نہیں کیا؟ یہ بھارت ہی تو ہے۔
جس نے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی دریائوں پر غیر قانونی ڈیم تعمیر کر رکھے ہیں اور سال آبی دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان میں سیلاب لانے کا سبب بنتا ہے۔ سیلاب سے ہونے والی حالیہ بربادی بھی اسی کی آبی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ عین اس وقت جب شدید بارشوں کا سلسلہ جاری تھا بھارت نے بغیر اطلاع کے پاکستانی دریائوں میں پانی چھوڑ دیا اور پھر غلط معلومات فراہم کرتا رہا تاکہ پاکستانی حکومت صحیح معنوںمیں حفاظتی انتظامات بھی نہ کر سکے۔بہرحال احمد آباد گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہانے والے مودی کو انسانی ہمدردی کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔جو شخص آج تک گجرات فسادات کی معافی مانگنے کیلئے تیار نہیں اور جو علی الاعلان یہ کہتا رہاہے کہ اسے مسلمان سے زیادہ کتے کے مرنے کا افسوس ہوتا ہے۔
اس سے کسی خیر کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ پاکستان میں حالیہ چند برسوں میں زلزلوں اور سیلاب کے بڑے سانحات ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ غیور پاکستانی قوم نے جس طرح بیداری کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کی تاریخی داستانیں رقم کی ہیں اس کی پوری دنیا گواہ ہے اوراس کی مثالیں بیان کرتی ہے۔ آج بھی جب پنجاب اور آزاد کشمیر کے علاقے سیلاب کی لپیٹ میں ہیں ۔ پاک فوج اور ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ جماعةالدعوة، فلاح انسانیت فائونڈیشن اور دیگر رفاہی و فلاحی تنظیموں کے رضاکارکشتیوں کے ذریعہ دوردراز دیہاتوں و علاقوں میں پہنچ کر متاثرہ بھائیوں کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں۔
JAMAT U D DAWA
اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانیوں کو ہندوبنئے کی امدادکی کوئی ضرورت نہیں ہے اور وہ مودی سرکار کی پیشکش کو ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ البتہ یہ بات طے شدہ ہے کہ بھارت سرکار اگر جماعةالدعوة جیسی تنظیموں جن کے رضاکار سیلاب اور زلزلوں میں امدادی سرگرمیوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ان کی مدد اور تعاون چاہتا ہے تو وہ ان شاء اللہ اسے مایوس نہیں کریں گے کیونکہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مسلمانوں کی طرح ہندوئوں کی مدد بھی اپناشرعی فریضہ سمجھتے ہیں اور آج بھی سندھ و بلوچستان میں اسکی واضح مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔