مثبت سمت کے تعین اور نظام جرگہ

Education

Education

ہم ایسی کشمکش میں مبتلاء ہیں کہ جس کے آئینہ میں رخ فردا گرد آلود اور دھندلا نظر آرہا ہے۔ ایسی گو مگو کی کیفیت میں مستقبل بعید و قریب تاریک منظر پیش کر رہا ہے۔ ان حالات میں ارادوں کا پا یۂ تکمیل کو پہنچنا تو دور کی بات خیال میں ارادوں کا تصور اور خیال بھی نا ممکن ہو چکا ہے۔ ان اندھیروں کے تہہ در تہہ زمانے ختم ہونے کے انتظار میں پہلے ہی نسلیں بر باد ہو چکی ہیں۔ یہی بر بادی آج ہماری بر بادی پر منتج ہوئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کی نسل اور سماج روشنی کی بجائے ظلمت کا شکار ہے۔ تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ کہ ہمارا کل روشنی سے منور ہوگا۔ عام تصور یہ ہے کہ یہ زمانہ سائنس کی ترقی اور تعلیم کا ہے۔ مگر معاملہ اس کے بر عکس و متضاد ہے۔ کیونکہ میدان علم ، شعور میں ہم پسماندگی کی انتہائوں کو پہنچ چکے ہیں۔

اسی لئے تو آج ہم سے اپنی صحیح سمت کا تعین ہوا ہے اور نہ ہی کوئی خاص منزل ہمارا ہدف اور مقصد ہے۔ اگر یہ کہا یا دعویٰ کیا جائے کہ سیاسی حوالے سے ہمارے افکار کا تعین درست سمت کی صورت میں ہے۔ تو بھی شر مندگی اور ندامت کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ سیاست دان یا سیاست کار ہی سیاسی اصولوں کے ماہر اور جاننے والے ہوں ۔ رائے دہندگان کیلئے اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ وہ اصول سیاست کاری سے واقف ہوں ۔ جب ووٹ دینے اور لینے والے دونوں باخبر ، با شعور اور عقل مند ہوں گے تو کچھ شک نہیں کہ نظام سیاست درست سمت پر رواں نہ ہو۔۔۔۔۔! جب ایسے طبقات یا گروہ یعنی انبوہ جا ہلاں و جہلاء زمین ، زمین بھی وہ جو محض اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اس کے وسائل پر قبضہ ایک غیر منطقی دلیل ہے پر قابض اور مخلوق خدا بلکہ مخلوقات خدا پر حاکم ہیں اور ہے ۔ اس ناجائز قبضہ کو اپنا وراثتی حق قرار دینے لگ جائیں گے۔ تو اس کا نتیجہ یقینا منفی نکلے گا۔ معاشی ، اقتصادی ، معاشرتی تجارتی اور سیاسی نا ہمواری و نا انصافی کا دنیا میں وجود بھی انہی وجوہ کی بناء پر ہے ۔ عمل کا رد عمل ایک قدرتی عمل اور فطری اصول ہے۔

یہاں سرِ راہے اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتا چلوں کہ دنیاء میں اس وقت دو قسم کے قوانین موجود ہیں ۔ ایک وہ قانون جو علاقائی سطح پر لوگ خود ترتیب دیتے ہیں ۔ علاقائی مسائل ( لڑائی جھگڑے) مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عام طور پر ان جر گوں ( پنچائتوں ) میں تقریباً ہر مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔ ثالث آگاہی و علم رکھتے ہیں کہ فریقین کس حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں یا متنازعہ فیہ مسئلہ و معاملہ میں کس حد تک فریقین قصور وار ہیں ۔ چنانچہ ایک ایسا سرکاری منصف /عادل جو کوئی سماجی حیثیت نہیں رکھتا اور نہ ہی علاقائی رسوم و رواج جو لوگوں کی زندگیوں پر مکمل طور پر اثر انداز ہیں سے واقف ہوتے ہیں ۔ منصفانہ اور عدل پر مبنی فیصلہ نہیں کر پاتا ۔ اس سے بڑھ کر عدالتی سماعت کے دوران پولیس کا روائی کو اہم سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن پولیس کار روائی پاکستان میں سو فیصد جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔

Jirga

Jirga

ہر ایف آئی آر اور تفتیش کے پیچھے بد ترین بد عنوانی کار فرما ہوتی ہے ۔ دریں حالات عدالتی نظام کے بس میں نہیں ہوتا کہ شفاف عدالتی فیصلہ سامنے آسکے جرگہ یا پنچائتی نظام جو سماج میں ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے ۔ عدالتی نظام میں نا قابل قبول ہے لیکن عوام میں مقبولیت کا حامل ہے ۔ ایسے جھگڑے یا فسادات اور قبائلی جنگیں جو سال ہا سال سے چل رہی ہوتی ہیں جن میں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہوتی ہیں نظام ثالثی یعنی پنچائت/جرگہ کے ذریعے ان پرانی دشمنیوں کو مکمل طور پر ختم کر کے دوستی وو فاداری میں بد ل دیا جاتا ہے ۔ مگر شرط وہی ہے کہ اس نظام میں بد عنوانی ( کرپشن) کا شائبہ تک بھی نہ ہو ورنہ نتائج منفی صورت میں ملیں گے ۔ ۔۔۔! جب بھی پاکستان اور دنیا کے کسی بھی ملک کے درمیان سرد مہری یا تلخی پیدا ہوتی ہے تو حل کیلئے مذاکراتی عمل پر زور دیا جاتا ہے ۔ پھر یہی مذاکراتی عمل نتیجہ خیز بھی ثابت ہو جاتے ہیں ۔ اگر ملکی و قومی سطح پر ان حالات کو دیکھا جائے تو بھی مذاکراتی عمل یعنی جرگہ/پنچائتی نظام سے کام لے کر مثبت نتائج اخذ کئے جاتے ہیں ۔ حکومتی سطح پر اس نظام کو مسیحا کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے سنجیدہ دھرنوں کو سیاسی جر گہ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بجائے اس کے کہ یہ معاملہ عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ۔۔۔۔! بارِ دگر عرض ہے کہ معاشرتی یا سماج میں مثبت اقدار اور تاثر کے فروغ یا نفاذ کیلئے ہمیں فکری سطح پر نیکی و بدی کے سمت کے تعین میں لگی لپٹی اور رو رعاست سے باز رہنا ہوگا۔

ورنہ ہمیں تاریخ بد دیانت اور چور کہے گی۔ ۔۔۔ اس ضمن میں مستقبل اور حال کا غیر جانب دار مؤ رخ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار کو اور ہمیں بد دیانت ، جھوٹا ( کذاب ) اور ریا کار پہلے ہی لکھ چکا ہے ۔ اعلان ہونا محض باقی ہے ۔ اہل عقل و خرد حالات کی پیش گو ئیاں پہلے ہی بھانپ چکے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ” جیسے روح ویسے فرشتے” یہی صورت حال کچھ ہمارے ساتھ بھی پیش ہے ہم کہ جو حکمرانوں کو گالیاں دیتے ہیں ۔ بد دیانت کہتے ہیں ۔ بد عنوان کہتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ان بے حس اور بے حمیت سر مایہ داروں اور جا گیر داروں کو کس نے سیاسی طاقت یعنی ووٹ دے کر اقتدار کی کرسی پر بٹھایا۔۔۔؟

Mansha Fareedi

Mansha Fareedi

تحریر: منشاء فریدی
چوٹی زیریں، ڈیرہ غازی خان
0333-6493056
ممبر پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹس