آج مسلم لیگ (ن)جو بالغ نظری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور باہمی اختلافات اور رنجشوں کے باوجود کسی قدر تحمل اور برداشت کا رویہ اپنائے ہوئے ہے، درحقیقت یہ کہیں نہ کہیں اس موجودہ بحران کی خود بھی ذمہ دار ہے۔ مسلسل 14 ماہ عوام کے جذبات اور وعدوں پر شب خون مارا گیا ،ذاتی مفادات اور اقربا پروری کو اولین رکھا گیا اور اس پر طرہ یہ کہ اگر کسی نے آوازہ بلند کیا تو ظلم و جابریت اور رعونت کا انداز اختیار کر کے خاموش کروا دیا گیا ۔مظلوم شکایت کرتا بھی تو کس سے کرتا جبکہ تمام اہم مناصب پر اپنے ہی قرابت دار براجمان تھے۔
بقول شاعر بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی ،منصف بھی کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
انہی بے نیازیوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے حکومت کی ناقص کارکردگی کو بنیاد بناتے ہوئے تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگایا جا رہا ہے ۔اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر غیر آئینی اقدام کو اپنایا جا رہا ہے اور جمہوریت کی بساط لپیٹ کر طویل مدتی نگراں سیٹ اپ لانے کی خواہشات کا کبھی پوشیدہ طور پر اور کبھی برملا طور پر اظہار کیا جا رہا ہے ۔گرچہ وقت کی گھڑیوں نے یہ مناظر پہلے بھی دیکھے ہیں ،مگر کسی بھی دور میں نہ انقلاب برپا کیا جاسکا اور نہ ہی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی لائی جا سکی ۔البتہ ملک کو تباہی کے اس موڑ پر پہنچا دیا گیا کہ ہر ذی شعور بے ساختہ کہہ اٹھا کہ
آزاد آسماں سے ہم دور ہوگئے اپنے ہی دیس میں سب محصور ہو گئے
اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ موجودہ حکومت کو بحران و مسائل اور مشکلات ورثے میں ملے تھے جن کو حل کرنے کے لیے مناسب حکمت عملیوں کی ضرورت تھی ۔سوال یہ ہے کہ وہ اس میں کہاں تک کامیاب ہو پائے ہیں تو آج اکثریتی سروے رپورٹس یہ دکھا رہی ہیں کہ موجودہ حکومت کی عملی کارکردگی سابقہ حکومت کی کارکردگی سے بہتر ہے لیکن یہ حقائق نامہ عوام کی معاشی ،معاشرتی ،امن عامہ ،قانون و انصاف اور ضروریات زندگی کی زبوں حالی کی عکاسی نہیں کرتا ۔یہ صرف اور صرف اختلاف برائے اختلاف یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے کیونکہ حکومت بعض بنیادی کاموں میں عملاًتقریباً ناکام رہی ہے۔
اگر ہم پچھلے ١٤ ماہ کا بغورجائزہ لیں تو یہ حقیقت ہم پر آشکار ہو تی ہے کہ عوام میں یاس کی وبا جنم لے چکی تھی ۔ملک میں کرپشن مسلسل بڑھ رہی تھی ،رشوت ،کمیشن اور سرکاری وسائل پر لوٹ مار کے نت نئے طریقے ایجاد ہورہے تھے ،غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہا تھا ۔ملک میں نظام احتساب مفلوج ہوچکا تھا ،معاشر ے میں اخلاقیات روبہ زوال تھی ،مرد و زن کا اختلاط اور حیا باختہ پروگرام اسلامی معاشرے کے منہ پر طمانچہ تھے ۔کم سن بچیوں کی عصمت ریزی اور سنگین جرائم میں کسی بھی مجرم کو سزا کا نہ ہونا بھی ایک سوالیہ نشان تھا۔علماء فرقہ پرستی اور مو قع پرستی میں اپنے فرائض فراموش کر چکے تھے۔
Pakistan
حکمران بھارت کی چال بازیوں اور ماضی کے رویوں کو فراموش اور نظر انداز کر کے انھیں اپنا دوست تسلیم کر چکے تھے جبکہ وہ آج بھی کوئی موقع گنوانا اپنا توہین سمجھتے ہیں اورنریندر مودی کا وزیراعظم بننا پاکستان کے لیے بلاشبہ تشویش کا باعث تھا ایسے میں عوام بھی ایسی ہی ہیجانی کیفیت کا شکار ہو گئے۔
درحقیقت معاشرہ ایک سمجھ نہ آنے والی جنگ کی صورت اختیار کر چکا تھا۔مزید برآں ہر طرح کے سنگین جرائم خواہ وہ شہریوںکے متعلق ہوں یا قومی خزانوں اور اثاثہ جات کے غاصبوں کے خلاف ہوں عدالتی موشگافیوں اور بیچ بچائو والی سہولتیں دینے والے قوانین کی وجہ سے انتہائی اقدام کے طور پر جوڈیشیل عدالتی کمیشنوں کے قیام کے باوجود اکثریتی مجرمان بچ بچا کر بسا اوقات ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوتے چلے آرہے ہیں
حتی کہ آج کے ایوانوں میں اہم ترین اراکین کے باہمی ٹکرانے پرآج ایک دوسرے کے بارے میں سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں اور دانشوراور مفکرین میں سے ان کی اکثریت اپنی حق گوئی اور بیباکی کو نظر انداز کر چکی ہے اور وہ اپنے اپنے معاشی پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوئے مالکان کے اداروں کے اشاروں پر اپنے اداروں کے حسب حال اپنی آراء لکھنے اور بولنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ ہمہ وقت کھرا سچ پیٹ نہیں بھرتا اور مطلب کی کہنے والے کے لیے دلکش مواقع موجود رہتے ہیں اور جہاں عوام کے مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے
وہاں کے حالات اس سے بھی بدتر تصویر پیش کر رہے ہیں۔قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں وزیراعظم ،وزراء اور اراکین کی حاضری بھی کم رہی اور اس پر بعض اراکین اسمبلی دبے دبے الفاظ میں سراپااحتجاج بھی ہوتے رہے اور اس کے ردعمل میں پارلیمنٹ کا تقدس پامال ہوتا رہا ۔پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے ڈرون حملوں ،جنسی تشدد ،زیادتی کے واقعات ،مہنگائی اور توانائی سمیت تمام مسائل اور اہم قومی امور پر30 قراردادیں جبکہ انسداد دہشت گردی آرڈینینس سمیت 7آرڈینینس ایوان میں پیش کئے گئے مگر۔۔۔پیش رفت ندار۔ عوام ہر دن ہی کسی نہ کسی جگہ سراپا احتجاج ہی نظر آئے ،کچھ انصاف نہ ملنے سے دلبرداشتہ ہو کر خود سوزی جیسے سنگین اقدام کے بھی مرتکب ہوئے مگر ہر صدا ایوانوں سے ٹکرا کر لوٹ آئی۔
حکمران اس سے بے خبر رہے کہ عوام کی ذہنی حالت کیا ہو چکی ہے ؟میڈیا نے بھی مکمل چپ سادھ لی اگر ذکر کیا بھی گیا تو مصلحتوں کے مدنظر مبہم الفاظ میں حقائق کو بیان کیا گیا ۔نفسانی اغراض ہر شعبے میںغالب آگئیں ۔ آج جبکہ حالات یہ رخ اختیار کر چکے ہیں کہ سب ہی ہوائوں کا رخ دیکھ رہے ہیں ،مسائل اون کے گولے کی مانند اس حد تک الجھائو کا شکار ہو چکے ہیں کہ حکومت ،اپوز یشن ،احتجاجی اور عوامی سطح پر کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔ایسے میں اپوزیشن جماعتیں اور ارکان پارلیمنٹ بھی حکومتی بے نیازیوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
ڈھکے چھپے الفاظ میں اس بحران کی وجہ موجودہ حکومت کے رفقاء کو اور انتشار کی وجہ بیرونی طاقتوں کوقرار دے رہیں ۔ ارکان پارلیمینٹ کے بیانات نے عوام کو پھر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔رضا ربانی صاحب نے کہا کہ اگر سیاستدان کارکردگی دکھاتے تو یہ نوبت نہ آتی اور مشاہد حسین نے کہا کہ ماسی ویہڑا اور مغل بادشاہوں کا طرزِ حکومت بدلنا ہوگا اور اعتزاز احسن صاحب نے تو واشگاف الفاظ میں کہا کہ وزیراعظم صاحب اپنے ارد گرد دیکھیں میں آپ کو پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہیں آگ لگانے والے آپ کے گھر میں تو موجود نہیں ہیں ۔یعنی ان دگرگوں حالات کا ذمہ دار کون ہے اور اس نہج پر حالات کیسے آئے ؟اس انتشار کا سبب کیا ہے ؟حکومت اس قدر بے نیاز کیوں رہی ؟وزراء اور مشیر کیا کرتے رہے ؟ان سوالوں کاجواب آنے والا وقت دے گاکہ
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا