ہر ناکامی کے دامن میں کامرانی کے پھول ہوتے ہیں، شرط مگریہ کہ ہم کانٹوں میں نہ اُلجھ جائیں اور یہ بھی طے ہے کہ جوشخص ناکامی کا کڑواگھونٹ پینے کو تیار نہیں ہوتا اُسے کامیابی کا میٹھا امرت بھی نصیب نہی ںہوتا۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
گرتے ہیں شہسوارہی میدانِ جنگ میں وہ طفل کیا گرے جوگھٹنوںکے بَل چلے
تاریخِ عالم میںایسے بیشمار واقعات ملتے ہیںجہاں بڑے بڑے سالاروں کوپیہم ناکامیوںکے بعدہی کامرانی نصیب ہوئی لیکن ایسے لوگ جوناکامیوںسے بوکھلاکرعقل وشعورکادامن چھوڑدیتے ہیںوہ کبھی کامران نہیںہوتے۔اسلام آبادمیںدھرنادیئے بیٹھے رہنماؤںکے چہروںپر بوکھلاہٹ صاف نظرآتی ہے۔خاںصاحب کسی بھی صورت میںناکامی کا کڑواگھونٹ پیتے ہوئے نئے عزم کے ساتھ”سیاسی اکھاڑے”میںاترنے کوتیارنہیں۔اِس لیے اُنہیںکامیابیوںکاامرت بھی نصیب نہیںہوسکتا۔وہ کہتے ہیںکہ ڈی چوک اسلام آبادمیںنئے پاکستان کی بنیادرکھی جارہی ہے ۔ایک پاکستان اقبال کاخواب تھاجسے قائدِاعظم نے سچ کردکھایالیکن یہ پاکستان ہمیںپسندنہ آیااورجلدہی ہمیںاِس پاکستان سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگی اورہم”نیا پاکستان”بنانے کی تگ ودَوکرنے لگے۔ہماری کوششیںثمرآورہوئیںاوردسمبر1971ء میںذوالفقارعلی بھٹواورشیخ مجیب الرحمٰن نے مل کرڈھاکہ کے پلٹن میدان میںنئے پاکستان کی بنیادرکھی۔نئے پاکستان میںہم نے اپناآئین بنایااوراُسے ایک ایسی”مقدس”دستاویزقراردیاجس پرعمل درآمد”گناہِ کبیرہ”ٹھہرا۔اب ہم ایک دفعہ پھراِس پاکستان سے اوازار ”ہو چکے ہیں اور اب کی بارہم چارنئے پاکستان بنانے کی تگ ودَوکررہے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ بھٹواورمجیب کی طرح نئے پاکستان کی سعی کرنے والے کرداراب بھی دوہی ہیں،عمران خاںاورطاہرالقادری۔چہرے بدل گئے مگرنعرے وہی البتہ اِن نعروںکورنگین بنانے کے لیے جوحربے استعمال کیے جارہے ہیںاُن کاپہلے رواج نہ تھا۔یہ نئے پاکستان کی بنیادرکھنے والوںکی دین ہے کہ ہم ”تھرکتے”ہوئے نعرہ زَن ہوتے ہیںاورنئے پاکستان کے رہنمابھی۔
کچھ پانے کے لیے کچھ نہ کچھ کھوناتوپڑتاہی ہے۔اقبالنے بھی کہاتھاکہ”خونِ صدہزارانجم سے ہوتی ہے سحرپیدا”۔ہم بھی نیاپاکستان بنانے کے شوق میںفی الحال ”کھو”ہی رہے ہیں۔تین ملکوںکے سربراہ اپنے دَورے منسوخ کرچکے،ڈیڑھ ہزارارب کانقصان ہوچکا،آپریشن ضربِ عضب سے قوم کی توجہ ہٹ چکی،سٹاک مارکیٹ ڈانواںڈول اورڈالربلندیوںکی طرف گامزن اِس پہ مستزادسیلاب کی تباہ کاریاںجوسینکڑوںجانیںلے چکااوراربوںروپے کانقصان لیکن آزادی اورانقلاب مارچ کے دعویدارکرکٹ کھیلتے اور”میوزیکل کنسرٹ” سجاتے نئے پاکستان کا جشن منارہے ہیں۔کپتان صاحب توبارباریہ کہہ رہے ہیںکہ نئے پاکستان کی بنیادرکھ دی گئی لیکن قوم کا”موڈ”کچھ اورہی نظرآتاہے ۔
Imran Khan, Tahir ul Qadri
پہلی بارایساہواکہ قوم نے اِن رہنماؤںکویہ پیغام پہنچادیاکہ ہم سدھائے ہوئے بندرنہیںجوہرمداری کی ڈگڈگی پرناچنے لگیں۔چندہزارایک طرف اورپوری قوم دوسری طرف،چند ایم این اے ایک طرف اورپوری پارلیمنٹ دوسری طرف۔آخرکپتان صاحب اور قادری صاحب کووہ ہزیمت کیوںنظرنہیںآتی جوروزِروشن کی طرح عیاںہوچکی ہے۔علامہ قادری کو توچھوڑیئے کہ اُنہوںنے توبالآخرکینیڈاہی لوٹناہے لیکن خاںصاحب سے تولوگوںنے اُمیدکے بہت سے رشتے باندھ رکھے تھے اوربلاخوفِ تردید کہاجاسکتاہے کہ قوم اُنہیںمتبادل قیادت بھی سمجھنے لگی تھی لیکن ڈی چوک کے ایک ہی دھرنے نے سب کچھ عیاںکردیااور اب تحریکِ انصاف اپناوجودبچانے سے بھی عاری نظرآنے لگی ہے۔سچ کہاتھاارسطونے ” ضدحماقت سے شروع ہوکرندامت تک ختم ہوتی ہے”۔کہاجاسکتاہے کہ خاںصاحب نے اپنے ہاتھوںاپنی بربادیوںکی داستان لکھی اوریہ جانتے بوجھتے قوم سے اپناناطہ توڑاکہ
ڈالی گئی جوفصلِ خزاںمیںشجر سے ٹوٹ ممکن نہیںہری ہوسحابِ بہارسے
حضرت عمرکایہ قول ہے ”حکومت کے منصب کے لیے ایساشخص سب سے موزوںہے کہ جب وہ اِس منصب پرفائزنہ ہوتوقوم کاسردارنظرآئے”۔لیکن کنٹینرپرکھڑے خاںصاحب کسی بھی صورت میںقوم کے سردارنظرنہیںآتے۔پاکستان میںکئی صدوراوروزرائے اعظم آئے لیکن کسی نے کبھی سٹیج پر کھڑے ہوکرایسی حرکات نہیںکیںجوخاںصاحب کررہے ہیں۔ہمیںاِس سے کوئی غرض نہیںکہ کپتان صاحب کے دعوؤںاوروعدوںمیںجھوٹ کتناہے اورسچ کتنالیکن جس طرح سے وہ گانوںپرجھومتے اوراپنی تقریروں میں بازاری زبان استعمال کرتے ہیںاُسے دیکھ اورسُن کرسَرشرم سے جھُک جاتے ہیں۔عالمی برادری بھی کیاسوچتی ہوگی کہ ہم کِس معیارکے لیڈرپیداکررہے ہیں۔جب ہمارے رہنماہی سٹیج پرکھڑے ہوکرڈانس کررہے ہوںتوپھرنسلِ نَوکاناچناطے ہے کیونکہ اُس نے اپنے رہنماؤں کی پیروی کرنی ہوتی ہے۔
خاںصاحب نے دعوے توبہت کیے اورقوم کی آشاؤںکومہمیزبھی بہت دی لیکن سب کچھ خواب وخیال نکلا۔بنوںمیںلگ بھگ دَس لاکھ آئی ڈی پیزبے یارومددگارپڑے ہیںلیکن خاںصاحب نے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک سمیت خیبرپختونخواکی ساری کابینہ کواپنے پاس دھرنے میںبٹھارکھاہے۔جس دن پشاورمیںطوفانی بارشوںنے 18افرادکونگل لیا،اُسی دن وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک اورتحریکِ انصاف کے خیبرپختونخواکے صدراعظم سواتی ڈی چوک میںڈانس کا مقابلہ کررہے تھے۔میوزیکل کنسرٹ کے بعدخٹک صاحب اورخیبرپختونخواکے وزراء KPK کے گیسٹ ہاؤس میںچلے جاتے ہیں،خاںصاحب بنی گالہ کے محل میں،تحریکِ انصاف کے دیگررہنماء سریناہوٹل میں،میوزیکل کنسرٹ کے شوقین لڑکے لڑکیاںواپس پنڈی،اسلام آباداپنے گھروںمیںاورباقی رہ جاتاہے خالی کرسیوںکاسونامی یاتین چارسو بے یارومددگار۔
کیادھرنے ایسے ہی دیئے جاتے ہیںاورتحریکیںایسے ہی چلتی ہیں؟۔پہلے خاںصاحب تقریرسے پہلے یہ کہاکرتے تھے”(اے اللہ)ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیںاورتجھی سے مددطلب کرتے ہیں”۔لیکن اب اُنہوںنے یہ کہنابھی چھوڑدیا ہے۔ شایدشرم دامن گیرہوتی ہوگی کہ ایک طرف اللہ کانام اوردوسری طرف ہلّاگلّااورمیوزیکل کنسرٹ۔ہم تواب بھی خاںصاحب کویہی مشورہ دیںگے کہ عافیت اسی میں ہے کہ سیلاب کابہانہ بناکرکھِسک لیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ خاں صاحب نے اپنے آپ کو بند گلی میں قید کر لیا ہے۔ مراجعت وہ کرنہیں سکتے اور آگے کوئی راستہ بچانہیں۔جس امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کی آس میں وہ بند گلی میں پہنچے، وہ امپائر تو حکومت کے کندھے سے کندھاملائے کھڑا ہے پھر وہ کِس”غیبی قوت”کے انتظار میں ہیں؟۔