حکمران اور ان کے حواری آئین، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی دہائی دے رہے ہیں ان میں کئی ایسے ہیں جو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ انہیں ایک پیج پر لا کھڑا کیا ہے اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی حکمران اور ان کے حواری آئین، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں جس ملک میں جعلی ڈگری ہولڈر اسمبلیوں میں براجمان ہوں۔۔۔۔
کرپشن میں ملوث سیاستدان وزیر بن جائیں، بینکوں سے قرضے معاف کروانے اور لاکھوں کروڑوںکے نادہندہ عوام کے منتخب نمائندے بن جائیں یا پھر ارب پتی کھرب پتی شخصیات صر ف چند ہزارٹیکس دے کر سمجھیں انہوںنے بہت بڑا احسان کرڈالا ہے۔۔۔ دل پر ہاتھ رکھ کرکوئی کہہ سکتا ہے اس ملک میں آئین ،قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا ممکن ہے ۔اور جناب یہ کون سا قانون اور آئین ہے کہ چپ چاپ بجلی5روپے یونٹ مہنگی کردی جائے اور پارلیمنٹ سے منطوری بھی نہ لی جائے جبکہ اس سال بجٹ میں پرچون فروشوں پر بھی ٹیکس لگ گیاہے وہ ناراض نہ ہوں ٹیکس امیر دیتے ہیں اب تو ان کا شمار امیر لوگوں میں ہونے لگے گا یہ خوشی کی بات نہیں ہے کیا؟ امسال پیش کئے جانے والے بجٹ میں1422ارب کا خسارہ بتایا گیاہے خود وزیر ِ خزانہ نے اعتراف کیاہے کہ وہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں کر سکے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب پھر عوام کی شامت آنے والی ہے۔
بجٹ کا خسارا اورٹیکس کا ہدف پورا کرنے کیلئے انشاء اللہ عوام پر سائٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی نئی سکیمیں تیار کی جائیں گی اسحق ڈار اورCBRحکام کی مصروفیات زیادہ ہوئیں تویقینا بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافہ ہونا یقینی ہے حکومت اسی تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتی۔اس بجٹ میں ایک اور کمال کا نسخہ تجویزکیا گیاہے کہ بجلی کے صارفین سے ایڈوانس ٹیکس لیا جائے یعنی ٹیکس ہی ٹیکس ۔۔۔اور ہر چیز مہنگی۔۔۔ حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا موجودہ حکومت کے 16ماہ کے دوران ہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں وزیر ِ ِخزانہ اسحق ڈارنے بھی تسلیم کیاہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلوںمیں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی عام آدمی کا جینا دوبھرہوگیاہے ڈالرکی قدر میں کمی ہوئی ہے تو بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نیچے کیوں نہیں آئیں؟ ہے کوئی اس سوال کا جواب ۔۔۔ہمارے وزیر ِ ِخزانہ کے پاس؟؟؟ جب حکومت سماجی اور معاشی انصاف کو یقینی نہیں بناتی توپھر آئین ،قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیسے ممکن ہے ؟ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوںمیں استحکام رہتا انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض مجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے گراںفروشوںکے خلاف کیوں ایکشن نہیں لیا جاتا؟ عوام کو ظالموںکے رحم وکرم پرکیوںچھوڑدیا گیاہے؟ کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے کیا یہ سب کچھ آئین ،قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کیا جاتا ہے؟۔
Inflation
پاکستان میں ہرسال ماہ ِصیام، عیدین اور بجٹ کے موقع پر ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتا ہے اب تو بجٹ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے اکثر وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش کررہے ہوتے ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں جیسے سوئی گیس کے گھریلو ارجنٹ کنکشن کی سیکورٹی فیس35000مقرر کردی گئی ہے دوسرا 25-20 سال پہلے کنکشن لگوانے والوں سے پھر سیکورٹی کے نام پر پیسے بٹورے جارہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخ تو ایک ماہ میں دو دو بار بڑھا دیئے جاتے ہیں کیا یہ سب کچھ آئین ،قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کیا جا رہا ہے؟ عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں جب بھی بجٹ آتا ہے۔
ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوںکو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال پر کوئی غور کرنا پسند ہی نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتاہے ،ہرروز چیزوںکے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیںہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اشرافیہ کی حفاظت اور پروٹوکول کیلئے پچاس ہزار سے زائد اہلکار تعینات کئے گئے،حکومتی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے،اللے تللے ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے۔۔۔کیا پاکستان کا آئین یہ کہتاہے کہ غریب ہمیشہ غریب رہیں گے ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو حکومت غربت کے خاتمہ کیلئے ٹھوش اقدامات کیوں نہیں کرتی اس ماحول میں محدود حکومتی وسائل کا رونا کوئی کب تک سنتا رہے ،جب سے حکومت نے ہر15 دنوں بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقررکرنے کی نئی حکمت ِ عملی وضح کی ہے مہینے میں دو بار مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے اوراس کی آڑ میں گراں فروشوںکو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتا ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں وزیر ِ خرانہ کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ نئے بجٹ میںکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں عوام ہرسال حکومت سے امید کرتے ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری نہیں ہو گی غریبوں کی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ عام آدمی کو ریلیف ملے حکمرانوں سے کوئی امید تو نہیں لیکن اللہ کے حضور دعا مانگنے میں ہرج کیا ہے۔
ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں جناب!اسحاق ڈار صاحب سے ایک بات پوچھنے کی جسارت کرناچاہتاہوں یہ جو سال بھر منی بجٹ آتے رہتے ہیں کیا یہ بھی آئین ،قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے آتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے جعلی ڈگری ہولڈر ارکان ِ اسمبلی کرپشن میں ملوث تمام سیاستدان،بینکوںسے قرضے معاف کروانے اور لاکھوں کروڑوںکے نادہندہ عوام کے منتخب نمائندے، بجلی، گیس اور ٹیکس چوروں کی پراپرٹی بحق ِ سرکارضبط کرکے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نااہل قرار دیدیا جائے اس سلسلہ میں عدالت ِ عظمی کو ازخود نوٹس لے کرملک کے وسیع تر مفاد میںاپنا کردار کرناچاہیے واپڈا، سوئی نادرن،سوئی سدرن گیس،CBRسے بجلی، گیس اور ٹیکس چوروں کی فہرستیں طلب کی جائیں اس ملک میں کروڑوںکی لگژری گاڑیوں میں بیٹھ کر پارلیمنٹ اور اسمبلیوںمیں آنا اورٹھنڈے ٹھار ایوانوں میں عوام کے حقوق کی باتیں کرنا فیشن بن گیا ہے یہ سنگین مذا ق اب بند ہو جانا چاہیے ہم سمجھتے ہیں جس دن بجلی، گیس اور ٹیکس چور،ملاوٹ کرنے والے،قرضے معاف کروانے والے اور لمبی کمیشن سے مال بنانے والے کرپٹ عناصر کیفرکردار تک پہنچ جائیں گے اس دن ہر پاکستانی بر ملا کہہ اٹھے گا آئین، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا ہے۔