ملک بھر میں طوفانی بارشوں اور سیلاب نے نظام زندگی درھم برہم کر دیا۔ سینکڑوں لوگ موت کی بے رحم موجوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ لیکن دھرنا پارٹی متاثرین کی مدد کرنے کی بجائے بھنگڑے ڈال رہی ہے اور بچوں کے سکول کھول دیئے گئے ہیں۔ حالانکہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین سمیت دیگر دینی جماعتوں کے سربراہان نے بھی خدا اور رسول کے واسطے دے کر اپیل کی اس مشکل حالات میں متاثرین کی مدد کی جائے اور دھرنے ختم کردیئے جائیں۔ دوسری جانب BBC کی رپورٹ میں دھرنوں کو خرکار کیمپ قرار دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ کرائے کے انقلابیوں عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو چند ٹکوں کے عوض زبردستی رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
نئے پاکستان اور انقلاب کا دعوی کرنے والوں کا اس مہذب دور میں طرز عمل دیکھیئے کہ عورتوں اور معصوم بچے لانے پر زیادہ رقم دینے کا لالچ دیا گیا۔ کیا یہی نیا پاکستان ہے جس سے لوگوں کو پابند کر کے دھرنا سیاست کی جارہی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین نے ڈان نیوز کے ایک انٹرویو میں فوج کو دعوت دے دی اور الزام عائد کیا کہ الیکشن میں جنرل کیانی اور چیف جسٹس نے دھاندلی کروائی۔ یہ سب کچھ دھرنے کی ناکامی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
شائد چوہدری برادران کو عوام کے ذریعے حکومت میں آنے کی امید نہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ بیک ڈور سے حکومت میں آنے کی کوششوں میں مصروف رہیں۔ کیونکہ 2013 کے الیکشن میں چوہدری برادران کو صرف 15 سیٹیں ملیں۔ مارشل لاء کسی بھی لولی لنگڑی جمہوریت سے بہتر ہے۔ اسلام آباد دھرنا ، بارشوں اور سیلاب کے باعث تباہی نے پورے ملک کی عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سکیورٹی خدشات کے باعث سری لنکا مالدیپ اور اب چائنہ کے سربراہان کے دورے منسوخ ہو گئے۔ جس سے پاکستان کی ساکھ مجروح ہوئی ہے۔ اور معاشی طور پر بھی دھچکا لگا ہے۔
سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کی جانب سے دھرنوں میں نقصانات کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر 100 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ 32 ارب ڈالر کے منصوبوں کی چائنہ کے صدر نے منظوری دینی تھی۔ وہ نہ ہو سکی۔ جس میں سب سے زیادہ توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔ جبکہ اسلام آباد سیکریٹریٹ اور پی ٹی وی کے دفتر کے نقصانات علاوہ ہیں۔ اسلام آباد میں 20 ہزار افراد کی موجودگی میں رچایا جانے والا ڈرامہ انتہائی منظم ہے۔ جس کی تخلیق کسی نے ایسی کی کہ اس میں پلاٹنگ ، ڈائریکشن اور ایکٹنگ بہت اعلیٰ اور کامیاب تھی۔ آپ دیکھیں کہ لاہور سے اسلام آباد تک دونوں بھائیوں نے مکمل پابندی کے ساتھ ایک دوسرے کا خصوصی خیال رکھا۔ اور ایک وقت میں اسلام آباد اور پھر ڈی چوک سے پارلیمنٹ کی جانب بڑھے اور ایک موقع پر جب دھرنے میں شرکاء کی تعداد کم ہو گئی تو مولانا طاہرالقادری صاحب کا اچانک لائوڈ سپیکر خراب ہو گیا تو ان کے پنڈال میں تو آواز نہ آئی بلکہ عمران خان کے پنڈال تک آواز جا پہنچی۔
پروگرام کے تحت انہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنے دھرنے میں آکر خطاب کرنے کی دعوت دی۔ جس کے باعث دونوں رہنمائوں نے تمام صورتحال پر مشاورت کی۔ ڈر یہ ہے کہ کہیں بین الاقوامی سطح پر نظر آنے والا نقشہ پر عمل تو نہیں کیا جا رہا۔ جس میںنئے پاکستان کے نقشے سے بلوچستان سمیت کراچی کو بھی کاٹ دیا گیا ہے پر اللہ نہ کرے عمل شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان دنیا کے اہم ترین حصے میں واقع ہے۔ اور عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز اور تمام اسلامی ممالک کی نگاہیں اس ایٹمی پاکستان پر ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران اس کو سنبھال نہیں پا رہے ہیں۔ اقتصادیات کو کو کنٹرول کرنے کوشش کی گئی اور نہ ہی اس ملک کے حالات کو ٹھیک کیا جا سکا۔ انقلاب اور آزادی مارچ نے ملک کو مکمل طور پر تباہ اور جام کر کے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ ان کے بعض مطالبات بالکل درست ہیں۔ لیکن ان کا طریقہ کار انتہائی غلط اور خطرناک بھی ہے۔ جس سے اس کے پس پردہ معاملات پر شک گزرتا ہے۔ عمران خان کے پاس اپنی بات منوانے کا سب سے بہترین فورم قومی اسمبلی تھا۔ اور پھر اپوزیشن بھی ان کے ساتھ تھی۔ لیکن شائد وہ کسی اور کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
Tahir ul Qadri,Imran Khan
پاک فوج آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں صرف حکومت کو ہی مذاکرات کرنے کا کہا گیا لیکن عمران خان اور طاہرالقادری کو کیوں نہیں کہا جاتا۔ چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے ماشل لاء لگانے کی باتیں اسی سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ دھنوں کے مظاہرین پولیس کے خلاف جبکہ پاک فوج کو دیکھتے ہی ان کے حق میں نعرے لگاتے رہے ہیں۔ یہ تو اللہ بھلا کرے جاوید ہاشمی کا کہ وقت سے پہلے ان چیزوں کا انکشاف کر کے میاں نواز شریف کی حکومت میں جان ڈال دی۔ ورنہ یہ سازش کامیاب ہو چکی ہوگتی۔ تاہم قومی اسمبلی میں ان سب چیزوں پر کھل کر بات ہوئی اور اعتزاز حسن ، خورشید شاہ ، رضاء ربانی ، مولانا فضل ا لرحمن ، آفتاب شیر پائو ، محمود خان اچکزئی ،اعجاز الحق و دیگر نے باہر بیٹھے دھرنوں کے قائدین کو غدار اور اور دہشتگرد کہا اور ساتھ ہی موجودہ حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ لیکن افسوس کہ جلتی پر تیل ہمارے وزیرداخلہ نے ڈال دیا۔ اسلام آباد میں سرکاری عمارتوں پر قبضوں اور ایس ایس پی آپریشن عصمت اللہ جنیجو پر حملہ کر کے دنیا کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ یہ بھی نہ سوچا گیا کہ اس سے ضرب عضب جس میں ہماری پاک فوج نے کامیابی حاصل کی کہیں اس کو نقصان تو نہیں پہنچے گا۔ ہمیں یہ سب کچھ سوچنا ہو گا۔ اپنے مطالبات میں صدقت اور لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اور حکومت کو اپنی خامیوں کو دور کر کے سبق سیکھنا چاہیے۔ اور فارغ ہو کر اپنی تنظیمی صورتحال کو بہتر کرنا چاہیے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی پورے ملک میں کہیں کوئی تنظیم نہیں۔ بلکہ اس جماعت کو بیوروکریسی کے سر پر ڈی پی اور ڈی سی اور کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ جس سے مسلم لیگ (ن) کا ورکر سخت مایوس ہے۔
آپ دیکھیں کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ملک بھر میں مظاہروں کے دوران مسلم لیگ (ن) کا ورکر اس جذبہ کے تحت باہر نہیں آیا۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پھر اس جماعت کو پاکستان کی بڑی جماعت نہیں کہا جائے گا۔ اور ورکر مایوس ہو کر بکھر جائے گا۔ یوں تو پورے پاکستان کے ورکروں بلکہ ارکین اسمبلی کو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے بڑی شکایات ہیں اور ایک سال میں عرضیاں لکھنے کے باوجود ملاقات ندارد۔ دوسری جانب پنجاب حکومت انتہائی ناتجربہ کار حمزہ شہباز کے ذریعے چلائی جاری ہے۔ جن کے مشیروں میں رانا ثناء اللہ اور ڈاکٹر توقیر شاہ جیسے افراد شامل ہیں۔ جنہوں نے پنجاب کے اکثر اضلاع میں منتخب نمائندگان اور مسلم لیگ کے پرانے ورکروں کو کارنر کر دیا ہے ڈی سی او کے ذریعے اپنا تسلط قائم رکھا ہوا ہے اور ان کی عزت نفس مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔سانحہ ماڈل ٹائون میں 14 بے گناہ لوگوں کا قتل عام لمحہ فکریہ ہے اور حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج بھی۔ اگر پنجاب حکومت چلانے والا کوئی سنجیدہ شخص ہوتا تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ اور اگر اس میں میاں شہباز شریف اور ان کی ٹیم ملوث نہیں تب بھی یہ وقوعہ ہوجانے کے بعد اس کا سختی سے نوٹس لیا جانا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ حکومت نے ایک ہفتہ تک جوڈیشل کمشن کی رپورٹ کو دبا کر رکھا جس کے بعد یوں کہنا بہتر ہو گا علامہ طاہرالقادری کو انقلاب مارچ کا راستہ خود حکومت نے فراہم کیا۔ جس کا نتیجہ میاں نواز شریف کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی بڑی ریلی کے بعد دفع 144 نافذ ہونے کے باوجود ضلع لیہ میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے لوگ سرگرم ہیں اور کروڑ فتح پور اور لیہ میں ریلیاں نکالی گئیں۔ اور حکومت کے خلاف سخت نعرت بازی کی اور گو نواز گو کے نعرے لگائے گئے۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے لیہ سے رکن اسمبلی عبدالمجید خان نیازی نے پولیس کی جانب سے گرفتار کیئے گئے تین افراد کو اپنے درجنوں کارکنوں کے ساتھ پولیس وین روک کر انہیں زبردستی چھڑوا لیا اور پولیس ملازمین پر تشدد کر کے ان کی وردیاں پھاڑ دیں۔ اور پولیس کو ننگی گالیاں دی گئیں۔ اس دوران جب ڈی ایس پی خالد ڈاہا اور ایس ایچ او ربنواز کتھران پولیس نفری کے ہمراہ پہنچے تو ایم پی اے نے انہیں بھی دھمکا ڈالا۔ اور کہا کہ پولیس غنڈہ گردی کے خلاف روڈ بلاک کر کے احتجاج کرونگا۔ جس پر دونوں افسران منت سماجت پر اتر آئے۔ اور چھینے ہوئے تینوں افراد کی واپسی کی شرائط پر معاملہ ختم کرنے کی یقین دہانی کروا ڈالی۔ لیکن ایم پی اے نے کہا کہ مجھے گرفتار کر لیں ، کارکن واپس نہیں دونگا۔ اور ایس ایچ او کو کہا کہ تمہارے اندر جرأت ہے تو کسی کو پکڑ کر کے دکھائو۔ میں تمہارا وہ حشر کرونگا کہ تم یاد رکھو گے۔ اس موقع پر کارکنوں نے مجید خان کی جرأت اور بہادری پر ان کے حق اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس دوران موصوف نے پولیس پر تشدد کے کی ویڈیو بنانے والے صحافیوں سے کیمرے چھین لیئے اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔ کانسٹیبل پرویز اختر نے کاروائی نہ کرنے پر ایس ایچ او کروڑ کو نوکری سے استیفیٰ کی دھمکی دی۔ تاہم ایس ایچ او کروڑ نے اتنے بڑے معاملے سے اعلیٰ افسران کو آگاہ نہ کیا۔ ایجنسیوں اور سابق صوبائی وزیر کیا جانب سے معاملہ ہائی لیول تک پہنچنے پر ایس پی انویسٹی گیشن نذر عباس تھانہ کروڑ پہنچے اور انہوں نے کئی گھنٹے کی سوچ بچار اور رپورٹس حاصل کرنے کے بعد ایم پی اے مجید خان نیازی سمیت 23 نامزد اور 70 نامعلوم افراد کے خلاف تھانہ کروڑ میں رپٹ درج کی گئی۔ اطلاع کے مطابق پولیس تھانہ کروڑ نے پولیس پر حملہ کرنے ، وردی پھاڑنے اور ملزم چھڑوانے سمیت دفع 144 کی خلاف ورزی کر کے ریلی نکالنے اور حکومت کو گالیاں نکالنے پر ایم پی مجید خان نیازی ، ضیاء الحسن ایڈووکیٹ اور 40 نامزد جبکہ 570 نامعلوم افراد کے خلاف 2 الگ الگ مقدمات درج کر لیئے۔ اور 6 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی جا چکی ہے۔
عبدالمجید خان نیازی اپنے دیگر ساتھیوں سمیت روپوش ہے جبکہ پولیس پر حملہ کر کے ملزمان چھڑوانے کے مقدمہ میں ایڈیشنل اینڈ سیشن جج کی عدالت سے ضمانتیں بھی کروا رکھی ہیں۔ 16 ایم پی او میں ضمانت نہیں ہو سکتی ہے۔ پولیس ملازمین اور شہری اس کو ایس ایچ او کروڑ کی ملی بھگت قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ متعدد بار ایم پی اے مجید خان نیازی ریلوے ملازمین ، ڈاکٹرز اور دیگر شہریوں کو بے عزت کرچکا ہے۔ لیکن ایس ایچ او کروڑ جسے شائد تحریک انصاف کے ایم پی اے کی ہی سفارش پر ڈی آئی جی ڈیرہ جو کہ ان کے رشتہ دار بتائے جاتے ہیں نے تھانہ کروڑ میں تعینات کروایا۔ ایس ایچ او کروڑ نے اپنی بے عزتی کروا کر مجید خان کی آئندہ کیلئے سیاست کو پروان چڑھایا ہے۔ جس پر عوام یہ کہنے لگی ہے کہ مجید خان جیسا نڈر لیڈر اپنے کارکنوں کا تحفظ کرنا جانتا ہے۔ ویسے بھی عام شہریوں اور معززین کی تذلیل ایس ایچ او کروڑ کا و طیرہ بن چکا ہے۔ کسی کا جائز کام نہیں کرتے بلکہ ملزم کے سامنے مدعی کی تذلیل اور صلح نہ کرنے پر حولات میں دونوں کو بند کر کے صلح کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اور سچا مقدمہ درج کرنا بھی اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اور افسران کی نظر میں یہ باور کروانے کی کوشش کرتا ہے کہ میرے پیریڈ میں امن ہی امن ہے۔ حالانکہ آئے روز موٹرسائیکل چوری ، راہ زنی چوری کی وارداتیں معمول کا حصہ ہیں اور بڑے پیمانے پر منشیات کا دھندہ عروج پر ہے۔ لیکن ان لوگوں کے خلاف کارواء نہیں کی جاتی۔