سیلابوں نے پہلے بھی بار ہا ملک کو شدید نقصا نات سے دوچار کیا ہے اور ہر سال سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے مگرحکمران غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں اورانہوں نے سیلاب کی روک تھام اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے کچھ نہیں کیا ۔ ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب میں حکومت عوام کو ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے ،حکومتوں کا کام چیک تقسیم کرنا ،کفن دفن کا انتظام کرنا اور بعد از مرگ لوگوں کے گھروں میں جاکر آنسو بہانا نہیں ہوتا بلکہ انہیں حالات سے باخبر رہتے ہوئے عوام کے جان و مال کو بچانے کیلئے پیشگی انتظامات کرنے ہوتے ہیں لیکن گزشتہ سالوں میں آنے والے تباہ کن سیلابوں سے حکمرانوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
حکمرانوں کو زیب نہیں دیتا کہ لوگ ڈوب رہے ہوں اور وہ عیش وعشرت کی زندگی گزاریں ،بہتر یہ تھا کہ جب تک پانی نہیں اتر جاتا حکمران بھی متاثرین کے ساتھ رہتے ۔ ملتان اور مظفر گڑھ شہر کو بچانے کیلئے ہیڈ محمد والا اور شیر شاہ بند توڑ دیئے گئے اور اس سے پانی کا رْخ شجاع آباد کی طرف موڑ دیا گیا، جس کے بعد شجاع آباد میں لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لئے آپریشن شروع کر دیا گیا، شیر شاہ بند ٹول پلازہ کے قریب سے توڑا گیا۔ دونوں بڑے بندوں کو دو، دو مقامات پر بارود سے 100فٹ کے شگاف ڈالے گئے۔ شگاف پانی کے بڑھتے ہوئے دبائو کو کم کرنے کے لئے ڈالے گئے۔ اس وجہ سے مظفر گڑھ کا ملتان سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا، مزید بیسیوں دیہات ڈوب گئے اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔
ملتان شہر میں سیلاب کے خطرے کے پیش نظر سینکڑوں دیہات خالی کرا لئے گئے ہیں، شہر کو بچانے کیلئے ہیڈ محمد والا بند میں 100 فٹ چوڑا شگاف ڈالا گیا بعد میں چند فٹ کے فاصلے پر دوسرا شگاف ڈالا گیا جس کے باعث ریلا محمد پور گھوٹہ، بٹہ سندیلا، بستی گرے والا اور دیگر نشیبی علاقوں سے ہوتا ہوا واپس دریائے چناب میں گر جائے گا۔ شگاف ڈالنے سے جھنگ، کوٹ ادو اور مظفر گڑھ کا ہیڈ محمد والا کی جانب سے ملتان سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے پاک فوج اور سول انتظامیہ کو ہائی الرٹ کردیا گیا۔وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بہتر انتظامات سے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے اور عالمی امداد نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جبکہ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا تخمینہ مہینوں کی بجائے ہفتوں میں لگا کر سیلاب سے بچاؤ کے لئے خاطر خواہ اقدامات کئے جائیں کیونکہ موثر حکمت عملی سے ہی سیلاب سے بچاؤ ممکن ہے۔ نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ہوا جس میں نواز شریف نے ہدایت کی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے موثر حکمت عملی وضع کی جائے تا کہنقصانا ت سے کم سے کم ہوں۔انہوں نے کہا کہ آفات سے نمٹنے کے لئے قومی انتظامی حکمت عملی کا کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کے بھی ہدایت کی۔ حکومت اربوں روپے معاوضے اور تعمیرنو پر خرچ کرتے ہیں لیکن اگر یہی رقم موثر حکمت عملی اور انتظام پر خرچ کی جائے تو پھر سیلاب اور بارشوں کے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم نے چیئرمین این ڈی ایم اے کو ہدایت کی کہ سندھ میں جان و مال کے تحفظ کے لئے تمام تر احتیاطی اقدامات اٹھائے جائیں اس کے علاوہ چیئرمین این ڈی ایم اے نے سیلابی صورت حال پر وفاقی کابینہ کو بریفنگ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سیلابی ریلہ پیڈ پنجند کی طرف بڑھ رہا ہے اور دریائے چناب میں سیلابی صورت حال1992 کی طرح ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے پنجاب کے دس اضلاع متاثر ہوئے جن میں جھنگ،چینیوٹ اور حافظ آباد کے علاقے سیلاب کی تباہ کاریوں کا زیادہ نشانہ بنے جبکہ سیلاب سے274 افراد جاں بحق اور 43 ہزار گھروں کو نقصان پہنچا اور سیلاب سے 3 ہزار دیہات اور 11 لاکھ افراد متاثر ہوئے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ پاک فوج سیلاب سے متاثر علاقوں میں ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں کے ذریعے امدادی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لے رہی ہے جبکہ حکومت پنجاب اور این ڈی ایم اے بھی امداد اور بحالی کے کاموں میں مصروف ہے۔
Jamaat-ud-Dawa
سیلاب متاثرہ علاقوں میں رفاہی و فلاحی جماعتیں بھی امدادی کام کر رہی ہیں۔الخدمت فائونڈیشن اور جماعة الدعوہ، فلاح انسانیت فائونڈیشن کے کارکنان سب سے زیادہ متحرک ہیں ۔جماعة الدعوة کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک ہزار خاندانوں کے لیے امدادی سامان و خشک راشن روانہ کر دیا گیا امدادی سامان میں آٹا چاول گھی دالیں چینی ادویات اور دیگر سامان خوردونوش شامل ہیں ۔جماعةالدعوة کے رضاکار سیلاب سے متاثرہ ہر علاقے میںامدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موٹر بوٹس کے ذریعہ سینکڑوں افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے۔متاثرین کو انکے سامان اور مویشیوں سمیت محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے علاوہ پکی پکائی خوراک ، صاف پانی اور دیگر اشیاء تقسیم کی جارہی ہیں۔
اب تک جماعة الدعوة کی طرف سے سیلاب زدہ علاقوں میںایک لاکھ آٹھ ہزار سے زائد افراد میں پکا پکایا کھانا تقسیم کیا گیا۔لاہور،اسلام آباد،جہلم،گجرات،منڈی بہائوالدین،حافظ آباد،وزیر آباد،سیالکوٹ،میر پور، جھنگ، چنیوٹ، نارووال سمیت دیگر شہروں میںفلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکاروں نے 28 موٹر بوٹس کے ذریعے 26950 افراد کو سیلابی پانی سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کیاجبکہ سیلاب متاثرہ مختلف علاقوں میں فلاح انسانیت فائونڈیشن کے تحت 25 امدادی کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں سے موٹر بوٹس ،ٹریکٹر ٹرالیوں ،ربڑ ٹیوب کے ذریعہ سیلابی پانی میں پھنسے متاثرین میں کھانا پہنچایا جا رہا ہے۔ جماعة الدعوة کے میڈیکل مشن کے تحت 54میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں ڈاکٹر و پیرا میڈیکل سٹاف پر مشتمل ٹیمیں سیلاب متاثرہ افراد کا طبی معائنہ کرنے کے بعد مفت ادویات تقسیم کر رہے ہیں۔مختلف علاقوں میں 26000 سے زائد مریضوں کا علاج معالجہ کیا گیا۔
حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی پانی کے باعث پہنچنے والے نقصانات کی صورتحال اور متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف اورصوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید ،سیکرٹری سوشل ویلفیئر کیپٹن (ر) جہانزیب خان،ڈی سی او نارووال اور ہنگامی دوروں نے جہاں متاثرین کے نقصان کا کافی حد تک ازالہ کیا وہاں ریلیف کے کاموں میںکچھ افراد کی حق تلفی بھی ہوئی۔ یہاں ہر سال اگست اور ستمبر میں سیلاب بھی آتا ہے۔ لیکن ضلعی انتظامیہ اور ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ اپنے فرائض منصبی ایماندری سے انجام دیتے تو ظفروال کے شمال کی جانب نالہ ڈیک کا بندھ ٹیڑھا کے مقام سے کبھی بھی نہ ٹوٹتا۔اسی غفلت کے باعث تقریباً ایک کلو میٹر کا شگاف پڑنے سے تاریخ میں پہلی بار ظفروال شہر میں چار سے پانچ فٹ پانی لوگوں کے گھروں اور دوکانوں میں داخل ہوکر بڑی تباہی لایا۔
تین قیمتی جانوں کے علاوہ سینکڑوں مویشی اور ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی دھان کی فصل کو شدید نقصان پہنچا۔ ظفروال کے محلہ جموں گیٹ (گڑھی والا) میںبعض سیاسی افراد کی نگرانی میں پہنچنے والی امداد مستحق افراد تک نہیں پہنچ سکی،ان افراد نے صرف اپنے ووٹروں کی ہمدردیوں کو مدنظر رکھا دوسری جانب گورنمنٹ بوائز ہائی سکول، وٹرنریری ہسپتال،پانی والی ٹینکی اور گورنمنٹ ایلیمینٹری سکول کھجور والا ابھی تک حکومتی توجہ کے مستحق ہیں جہاں تین سے چار فٹ پانی کھڑا ہے جس سے تقریباً چار سے پانچ ہزار طلباء کا مستقبل سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔حالیہ سیلابی ریلے میں موضع جنڈیالہ،سنگیال،ظفروال میں تین افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ظفروال میں جاں بحق ہونے والے نوجوان کے ورثا ء کو تو سولہ لاکھ روپے کا چیک مل گیا۔
Imran Khan ,Tahir ul Qadri
تاہم سنگیال اور جنڈیالہ کے متوفیوں کے ورثاء کو مالی امداد نہیں مل سکی۔حکومت کواس پر خصوصی توجہ دینی ہو گی،بلا تفریق سب کی خدمت کرنی ہو گی اور مشکلات کا ازالہ کرنا ہو گا تبھی قوم کی ہمدردی حکومت کے ساتھ ہو گیاور اگر حکومی اہلکار صرف اپنے ووٹروں کو نوازتے رہے تو اس بات کا اندیشہ بھی ایک سو دس فیصد ہے کہ سیلاب کے بعد عمران خان اور طاہرالقادری کا دھرنا ختم ہو گیا تو یہ سیلاب متاثرین حکومتی بے حسی کے خلاف دھرنا دے دیں گے جو حکومت کے لئے آخری دھکا ثابت ہو گا۔