وطن عزیز کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وسطی اضلاع میں تباہی مچانے کے بعد دریائے چناب میں آنے والا بڑا سیلابی ریلا جنوبی ضلع ملتان میںلاکھوں افراد کو متاثر کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے’ اس وقت ملک جہاں اندرونی و بیرونی شدید خلفشار کا شکار ہے وہیں سیلاب کی موجودہ آفت نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا اور حسب سابق نا آگہانی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی بہادر افواج کو میدان میں اترنا پڑا۔
قارئین کرام! سیاست میں ٹائمنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں جہاں اسلام آباد میں دو سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے میں مصروف ہیں وہیں آنے والا تاریخی سیلابی ریلاان گنت سوالات چھوڑے جا رہا ہے’ ماہرین کے مطابق موجودہ سیلابی ریلا ماضی میں بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابی ریلوں سے بڑا ہے اور ایسے وقت میں سیلاب کے آنے کا امکان مسترد تو نہیں کیا جا سکتا لیکن سیلاب کی اس شدید نوعیت کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔
وفاقی دارلحکومت میں ملکی سلامتی کی خاطر سیکیورٹی سنبھالنے کے علاوہ پاک افواج اس وقت شر پسندوں کیخلاف آپریشن ضرب عضب میں بھی مصروف ہے اور مزید یہ کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی داد رسی اور ان کو بر وقت امداد پہنچانے کیلئے ہمارے فوجی جوان اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں اور ماضی کی طرح اس بار بھی تاریخ رقم کرنے میں مصروف ہیں’ ایسے حالات میں پوری قوم کو ایک ایجنڈے پر متفق ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے لیکن عصر حاضر کے میر جعفر و میر صادق اندرون خانہ اور کھلم کھلا پاک افواج کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں جن کے پشت پناہی کرنے والے ہاتھ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں’ سیلابی ریلوں’ شرپسندوںاور ملکی سلامتی کے مسائل سے نبرد آزما جرات و بہادری کی داستانیں رقم کرنے والے ہمارے فوجی جوانوں کو اس وقت قوم کی کھلی حمایت کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ امر انتہائی قابل ذکر ہے کہ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد پاک فوج کے ساتھ جذباتی وابستگی بھی رکھتی ہے لیکن موجودہ حالات میں اور آنے والے مستقبل قریب و مستقبل بعید میں افواج پاکستان کو قوم کی تمام تر حمایتیں درکار ہیں’ 2014 ء کے پاکستان میں بھی ماضی کی طرح اس وقت بھی ایک ہی ادارہ یعنی افواج پاکستان’ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کا ضامن ہے۔
قارئین کرام! جہاں پاکستان سے محبت کرنے والے عناصر پاکستان کی سلامتی و بقا کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے میں مصروف ہیں وہیں دشمنان اسلام و دشمنان پاکستان اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے قوم کو دھڑوں میں تقسیم کرنے کیلئے اپنی تمام تر توانیاں بروئے کار لا رہے ہیں اور ایسے عناصر اپنی سازشوں میں بڑی حد تک کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں’ ستم ظریفی یہ ہے کہ ارباب اختیار ایسے تمام عناصر سے روز اول سے باخبر ہیں لیکن ان کیخلاف موثر کارروائی کرنے سے ہمیشہ قاصر رہے ہیں’ موجودہ سیلابی صورتحال اس بات کا ثبوت ہے۔
ہمیشہ سے ماضی میں آنے والے تمام سیلابوں سے کسی حکومت نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی ان کے بندو بست میں دلچسپی ظاہر کی’ اگر کالا باغ ڈیم ‘ کرم تنگی ڈیم’ بھاشا ڈیم جیسے منصوبے مکمل ہو چکے ہوتے تو اس وقت ملک توانائی کے بحران کیساتھ ساتھ سیلابی آفتوں سے بھی نجات پا چکا ہوتا’ لیکن ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل پیرا حکمرانوں کی بے حسی اس وقت عروجپر ہے’ ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ کسی بھی نا آگہانی آفت کے آنے کے بعد سیاسی رہنمائوں کی طرف سے بیانات داغنے کا سلسلہ انتہائی زور پکڑ جاتا ہے۔
Pakistan Peoples Party
جبکہ اس کیلئے پہلے سے مل بیٹھ کر پالیسی تیار کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں نے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی’ پاکستان پیپلز پارٹی کالا باغ ڈیم کی روز اول سے مخالفت کرتی آ رہے اور اس کیساتھ ساتھ دوسری جماعتیں بھی کالا باغ ڈیم بنانے کے حق میں نہیں اور مزید یہ کہ انصاف کا نعرہ لگانے والی پاکستان تحریک انصاف نے بھی کبھی حکومت پر اس بات کا پریشر نہیں ڈالا کہ ڈیم بنائے جائیں اور ملک میں آئندہ 5 سے 10 سالوں میں آنے والی قحط سالی کو روکنے کیلئے کوئی جامع پلان بنایا جائے’ انتہائی افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ہمسایہ ملک ہمارے حصے کے پانی پر 100۔ سے زائد ڈیم بنا چکا ہے
وہ پاکستان کو بنجر کرنے اور جنگ کئے بغیر پاکستان کو زیر کرنے کے منصوبے پر انتہائی تیزی کیساتھ عمل پیرا ہے’ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکومت اپنے اپنے مفادات کے لئے دست و گریباں ہوتی نظر آ رہی ہیں’ مستقبل قریب اور مستقبل بعید کے حالات پر نظر رکھنا تو دور کی بات یہاں سوچنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا اور وہ وقت دور نہیں جب ہمسایہ ملک صرف پانی چھوڑ کر پاکستان کو شدید ترین نقصانات سے دوچار کر سکتا ہے ‘ جس کے تجربات ہمسایہ ملک کی جانب سے وقتاََ فوقتاََ ہوتے رہتے ہیں’ ضرورت اس امر کی ہے۔
ذاتی اختلافات کو بھلا کر ملک کیلئے ایک سوچ پیدا کی جائے اور واضح خارجہ پالیسی اور داخلی سلامتی پالیسی اپنائی جائے اور اس پر عمل کیا جائے’ موجودہ حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو پاکستان کی خاطر انتہائی تیزی کیساتھ مثبت فیصلے کرنے ہوں گے اوران فیصلوں کیلئے عوام الناس کو حکومت پر زور ڈالنا ہوگا کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان پاکستان پر برا وقت آتے ہی اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں اور غریب پاکستانی تمام تر مسائل کی چکی میں پستا چلا جاتا ہے’ حکمران جماعت اور دیگر سیاسی جماعتوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کریں وگرنہ ظلم کی اس چکی میں غریب عوام پستی چلی جائے گی’ اپنے ہی ایک شعر کیساتھ تحریر کا اختتام کروں گا کہ۔ ظلم و ستم تمہارے کہاں تک سہے گا وہ؟ تم کو بہا لے جائیں گے آنسو غریب کے