امریکی (جیوڈیسک) حکام کے مطابق کئی عرب ممالک نے عراق میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی کارروائیوں میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہے۔ تاہم امریکی حکام کے مطابق ان کارروائیوں کے لیے عراقی حکومت کی اجازت درکار ہو گی۔
نے کہا ہے کہ عرب ممالک اور دیگر ممالک کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں میں مدد کی یقین دہانی سے ان کی بے حد حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ کلِک دس عرب ممالک سمیت تقریباً 40 ممالک نے شدت پسند دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے نمٹنے کے لیے امریکی قیادت میں ایک منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ کے دورے کے بعد پیرس پہنچے ہیں جہاں پیر کو عراق کی سکیورٹی کے معاملے پر کانفرس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ فرانس کی میزبانی میں ہونے والی اس کانفرس میں 20 ممالک کی شرکت متوقع ہے۔ امریکہ نے پیرس میں منعقدہ کانفرنس میں اہم علاقائی ملک ایران کی شرکت کو مسترد کر دیا ہے جس پر ایران نے ان مذاکرت کو ’محض نمائش‘ کہہ کر رد کر دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اتوار کو پیرس پہنچنے پر سی بی اس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکی عراق میں فوج نہیں بھیجنا چاہتا ہے۔ تاہم اس کانفرس میں دولت اسلامیہ سے متاثرہ ملک شام شامل نہیں ہے۔ شام کے ڈپٹی وزیر خارجہ فیصل میکداد نے کہا ہے کہ امریکی صدر اوباما کا دولتِ اسلامیہ کے خلاف اتحاد کا منصوبہ شام کی شمولیت کے بغیر بے مقصد ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’ ان کی حکمت عملی میں بہت اہم عوامل موجود نہیں ہیں۔ شام اس وقت شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور ہمیں شدت پسندی کے خلاف کسی بھی سنجیدہ جنگ کے درمیان میں موجود ہونا چاہیے۔‘ ’آپ اس وقت شدت پسندی کے خلاف لڑ نہیں سکتے جب آپ سعودی عرب، قطر اور ترکی سمیت ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں جنھوں نے ان شدت پسند گروہوں کو بنایا تھا۔‘
سعودی عرب اور قطر دولتِ اسلامیہ کی پشت پناہی کرنے کی تردید کرتے ہیں تاہم ان دونوں ملکوں نے شدت پسندوں گروہوں کو ہتھیار فراہم کیے تھے جن میں سے کئی اب دولتِ اسلامیہ کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ ترکی نے دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کو اپنی سرحد سے شام میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔