سیلاب جہاں ایک قدرتی آفت ہے وہاں پہ یہ ایک عالمی مسئلہ بھی ہے ہر ملک کی حکومت درپیش مسائل کا حل نکالنے کے لیئے دن رات مصروف عمل رہتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکمرانوں کی غلط پولیسوں کی وجہ سے مسائل جوں کے توں رہ جاتے ہیں اور ناکامیاں ہمارا مقدر بن جاتیں ہیں۔ سیلابوں کی سب سے بڑی وجہ پہاڑوں پر جمنے والی برف بنتی ہے ۔ جب سورج جمی ہوئی برف کو اپنی آنکھیں دکھاتا ہے تو برف پگھلنا شروع ہو جاتی ہے اور پانی بن کر ندی نالوں سے ہوتی ہوئی دریائوں کا رخ کرتی ہے تو دریا بھر جاتے ہیں اور دریائوں میں پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے اور پانی کناروں سے امنڈ کر سیلابی ریلوں کا روپ دھار لیتا ہے اور اپنے رستے میں حائل تمام رکاوٹوں (حفاظتی بند) کو عبور کرتا ہوا بڑے پیمانے پر جانی و مالی تباہی کا باعث بنتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ جن علاقوں میں سیلابی ریلا داخل ہوتا ہے وہاں بارشیں اس کا بھر پور استقبال کرتی ہیں یوں وہ اور زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے ۔ آجکل کے موسم میں جنوبی ایشیاء کے علاقے خوب گرم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہوا گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے اس طرح پاکستان میںبھی ہوا کا دبائو کم پڑ جاتا ہے۔ ہوا کے دبائو کی کمی کو پورا کرنے کے لیئے خلیج بنگال اور بحیرہ عرب کی ہوائیں خشکی کی طرف چلنے لگتی ہیں۔ یہ ہوائیں بخارات سے لدی ہوتی ہیں۔ اور برصغیر کے پہاڑی سلسلوں کے راہ میں حائل ہونے کی وجہ سے بارش کا باعث بنتی ہیں۔ بنگلہ دیش ، بھارت اور پاکستان کے علاقوں پر بارشیں انہیںکی بدولت برستی ہیں۔ جو دریائوں میں پانی کی سطح کو مزید بلند کر دتیں ہیں۔
ادھر بھارت پاکستان کو تباہ کرنے کی تاک میں لگا ہوا ہے اور اس سلسلہ میں وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ کبھی سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ تو کبھی بن بتائے دریائوں میں پانی چھوڑ دیتا ہے جب ہماری زمینیں جل رہی ہوتیں ہیں اور ہماری فصلوں کو پانی کی بوند بوند کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت بھارت سرکار پانی کا ایک قطرہ بھی آنے نہیں دیتا اور جب ہمیں پانی کی ضرورت نہیں ہوتی تو پانی چھوڑ کر ہماری پکی پکائی فصلوں کو تباہ برباد کر دیتا ہے جس سے ہمیں جانی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے گویا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ آبی دہشت گردی کر کے زراعت کو ہمارے ملک سے ختم کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے مگر ہماری حکومت بھارت کو للکارانے کی بجائے اس سے دوستی اور تعلقات بڑھانے پر مصر ہے۔ دشمن ہمیں تباہی کے دہانے پر دھکیل رہے ہیں۔
ہم آپس کی ریشہ دوانیوں میں الجھے ہوئے ہیں موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ملک کے بیشتر علاقے سیلاب کی لپیٹ میں ہیں اور ہمارے حکمران ایک دوسرے کے دست و گریبان نظر آتے ہیں ؟ اور حکومت آنکھوں پر پٹی باندھ کر سوئی ہوئی ہے کیا اسی کو جمہوریت کہتے ہیں؟ سونامی خان اور کنٹینر بابا دھرنوں کی سیاست سے باہر نکل کر سیلاب متاثرین کی امداد کریں ۔ اور حکومت بھی جمہوریت کو عملی جامہ پہناتے ہوئے میدان میں اترے اور سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے۔ہمیں ہر سال کسی نہ کسی بدترین آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کبھی زلزلے کی شکل میں آتی ہے کبھی طوفان بن کر اور کبھی سیلاب ۔۔۔۔۔۔
ترقی یافتہ قومیں انہیں روکنے کے لیئے ممکنہ اقدامات کرتی ہیں۔ کیا اچھا ہوتا اگر ہماری یہ حکومت ہمیں میٹروبس اور میٹروٹرین کے تحفے دینے کی بجائے ہمارے زراعت کے شعبے کو مضبوط کرتی جس پر ملک کے 70 فیصد باشندوں کا انحصار ہے اگر زراعت کے شعبہ پر توجہ نہ دی گئی تو ملکی معیشت بند گلی میں داخل ہو کر رہ جائے گی اور ملکی ترقی کا پہیہ جام ہو جائیگا۔ حکومت سیلاب سے بچنے اور سیلابی ریلوں کو روکنے کیلئے ممکنہ اقدامات کرے اور زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے جس سے پانی بھی محفوظ رہ جائیگا اور بوقت ضرورت ہم استعمال بھی کر سکیں گے اور انرجی بحران بھی ختم ہو سکے گا۔
Kalabagh Dam
کالا باغ ڈیم کا منصوبہ سندھ اور سرحد حکومت کی چپکلس کی نذر ہو کر ابھی تک مکمل نہ ہو سکا ہمارے حکمران کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں یوں لگتا ہے یہ پاکستان کے حکمران نہیں بھارت کے حکمران ہیں۔ جنگلات میں بھی دریا کے کٹاؤ کو روکنے میں معاون کی حیثیت رکھتے ہیں مگر محکمہ جنگلات کے آفیسران کی آشیرباد سے فاریسٹ گارڈز اور بلاک افسر درختوں کو اونے پونے فروخت کر کے جنگلات تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
حکومت دوسرے علاقوں کو آفت زدہ قرار دیکر وہاں کے لوگوں کو سبسڈی بھی دیتی ہے اور تمام ٹیکسز بھی معاف کرتی ہے۔مگر سرائیکی وسیب کیساتھ حکومتیں جیسا سلوک کرتی چلی آرہی ہیں۔ یہاں پسماندہ علاقہ ہونے کی وجہ سے مکینوں کا انحصار کھیتی باڑی پر ہے۔ یہاں دریا کھڑی فصلیں، مکانات وغیرہ ڈبو دیتے ہیں جانوروں کو بہا کر لے جاتے ہیں گویا کہ سب سے زیادہ نقصان جنوبی پنجاب میں ہوتا ہے مگر نہ تو کسی حکومتی عہدیدار نے ادھر کا رخ کیا ہے اور نہ ہی آج تک حکومت نے جنوبی پنجاب کو آفت زدہ قرار دیا ہے جو کہ تخت لاہور والوں کی سراسر ہٹ دھرمی ہے۔ حکومت کی بجائے پاک فوج سیلاب متاثرین کی امداد میں مصروف ہے۔
آجکل جنوبی پنجاب میں سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں حکومت سیلاب متاثرین کی امداد اور ان کی بحالی کے لیئے موثر اقدامات کرے اور خصوصی ٹیمیں تشکیل دے کر ان کے علاج معالجے کا خاطر خواہ انتظام کرے تاکہ متاثرین بچے، بڑے اور عورتیں وبائی امراض سے بچ سکیں اور حکومت بھارت کی طرف سے آبی دہشت گردی ، سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی سمیت دیگر مسائل عالمی سطح پر اٹھائے تاکہ بھارت اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور ہمارا ملک ترقی کی شاہراء پر گامزن ہو سکے حکومت کی ناقص پالیساں دیکھ کر ایک شعر یاد ہے رہاہے کہ۔ ہزاروں ڈوبنے والے بچالیئے میں نے اسے میں کیسے بچائوں جو ڈوبنا چاہے۔
Syed Mubarak Ali Shamsi
تحریر : سید مبارک علی شمسی ای میل۔۔۔۔۔۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com