کراچی (جیوڈیسک) عمران خان وزیراعظم بننے کیلئے ہر حد عبور کر سکتے ،چاہے نتیجہ کچھ بھی ہویا ملک کو اس کی جو بھی قیمت چکانی پڑے۔ عمران خان کی ضد نے ملک کے جمہوری نظام کو خطرات سے دوچار کر دیا۔
عمران خان کے دعوے میں کوئی صداقت نہیں کہ نواز لیگ نے انتخابات چرا لیے۔ نواز شریف کا کوئی بھی ا قدام عمران خان کیلئے یہ جواز فراہم نہیں کرتا کہ وہ انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کریں۔ عمران خان کی مہم جوئی سے ملک کو بڑا نقصان ہوا اور چینی صدرکا دورہ ملتوی ہوا۔
سیاسی اشرافیہ کی محاذ آرائی نے ملکی معیشت کو اندھیروں میں دھکیل دیا۔ عمران کے ابھی تک کے اقدامات جمہوری بساط کو لپیٹنے کے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ عمران خان پاکستانی کرکٹ کے ایک حقیقی ہیرو تھے،وہ غیر معمولی آل رآونڈر، باوقار بلے باز اور مضبوط فاسٹ بولر تھے۔
لیکن بطور سیاستدان ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وزیر اعظم بننے کیلئے ہر حد پار کرنا چاہتے ہیں چاہے اس کانتیجہ کچھ بھی ہو یاملک کو اس کی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ تاہم وہ کوئی مؤثر عوامی ہجوم اکٹھا کرنے میں ناکام رہے۔
گزشتہ ماہ سے عمران خان پارلیمنٹ کے سامنے ایک شپنگ کنٹینر لگائے بیٹھے ہیں اور طاہر القادری کے ساتھ مل کر وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کی 67 سالہ تاریخ میں پہلی بارنواز شریف کا بطور وزیر اعظم انتخاب ایک جمہوری حکومت سے دوسری حکومت کو منتقل اقتدار تھا۔ عمران خان نے اپنے احتجاج کو زیادہ طوالت کا شکار کر دیا۔
اپنی ہٹ دھرمی اور ضد سے انہوں نے جمہوری شیرازے کو پارہ پارہ کرنے کی دھمکی دی ہے جس کی حفاظت کا و ہ دعویٰ کرتے ہیں۔ عمران خان شاید حق بجانب ہوں کہ بے قاعدگیوں نے گزشتہ انتخابات کو متاثر کیا۔ تاہم اگر انہیں کامیابی کا کچھ مارجن بھی دیا جائے تو عمران خان کا یہ دعویٰ قابل قبول اور قابل اعتماد نہیں کہ نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ نے انتخابات چرالیے۔
حکومت کی ناقص کارکردگی پر عمران خان کی تنقید بھی بجا ہو سکتی ہے کیونکہ نواز حکومت توانائی کے بحران کو حل کرنے میں ناکام اور دہشت گردی کے متعلق ایک الجھی پالیسی کی پیروی کرتی رہی۔نواز شریف پہلے بھی دو بار وزار ت عظمیٰ پر فائز رہے اور اب بھی وہ اس عہدے سے بور دکھائی دیتے ہیں،ان کے طویل غیر ملکی دورے اور پارلیمنٹ میں بہت کم آنا ہے۔
لیکن نواز شریف کا ایساکوئی بھی اقدام عمران خان کے اس عزم کو جواز فراہم نہیں کرتا کہ وہ نواز شریف کومستعفی ہونے پر مجبور کریں اور 20 کروڑ کے جوہری ملک کو سیاسی بحران میں پھینک دیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ عمران خان کی اس مہم نے ملک کوغیر معمولی نقصان پہنچایا اور چینی صدر شی پھینگ نے اپنادورہ پاکستان ملتوی کر دیا۔
اس پر مزید نمک پاشی یہ ہوئی کہ چینی صدر نے بھارتی دورے میں مزید ایک دن کی توسیع کردی۔ کئی علاقوں میں بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول ہے، سیلاب نے سیکڑوں افراد کی جان لے لی جب کہ دوسری طرف سیاسی اشرافیہ اقتدار اور طاقت کے حصول کے لئے محاذ آرائی میں مصروف ہے اور ملکی معیشت جو بہتری کی طرف رواں دواں تھی۔
اسے دوبارہ تاریکیوں میں دھکیل رہی ہیں۔ دونوں اطراف سے تعطل کی صورت حال نے سیاست میں فوجی مداخلت کے خطرات پیدا کر دیئے ہیں، فوج ایک غیر جانبدار تیسری طاقت ہے عمران خان نے سختی سے اس بات سے انکار کیا کہ فوج کی طرف سے انہیں استعمال کیا جا رہا ہے فوج نواز شریف سے پرویز مشرف کے خلاف مقدمے سے ناراض ہے۔
اور خارجہ پالیسی پر کنٹرول کی کوشش میں ہے۔ لیکن عمران خان کے ابھی تک کے اقدامات ان ہاتھوں میں کھیلنے والوں کے ہیں جو پورے جمہوری نظام کی بساط کو لپیٹنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے برعکس نواز شریف نے سمجھوتوں کیلئے لچک دکھائی۔ انہوں نے اپوزیشن کے کئی مطالبات پر اتفاق کیا ہے۔
جن میں گزشتہ سال کے انتخابات کی عدالتی تحقیقات اور بحث سمیت انتخابی اصلاحات بھی شامل ہیں۔ افغانستان سے تھائی لینڈ تک کئی ایشیائی ممالک میں جمہوریت ابھی مضبوط بنیادوں پر نہیں،ان ممالک میں جو انتخابات میں حصہ لیتے ہیں وہ ہار جانے کی صورت میں نتائج تسلیم نہیں کرتے۔ جمہوریت کے متبال کیانظام ہو سکتا ہے کیا فوجی حکمرانی یا طاقت کے ذریعے ٹیکنو کریٹس کی حکومت۔ اب پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کو یہ دکھانا ہے کہ جمہوریت دیگر طرز حکمرانی سے بہتر ہے۔