بھارتی ریاست راجھستان کے سرحدی علاقے باڑ میرفائرنگ رینج میں بی ایس ایف افسران کی طرف سے بی جے پی لیڈر کے بیٹے کی ٹریننگ کروانے کی ویڈیو منظر عام پر آنے پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ ملک میں فوج کے پاس اسلحہ و گولہ بارود کی کمی کی خبریں آرہی ہیں جبکہ دوسری جانب بی جے پی لیڈروں کے شوق پورے کئے جارہے ہیں۔ منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں باڑ میر سے بی جے پی لیڈر گروراج سنگھ کے بیٹے کو سرکاری اسلحہ سے فائرنگ کی مشق کروائی جارہی ہے جبکہ اس دوران بی ایس افسران بھی موقع پر موجود تھے۔
بھارتی میڈیا کی جانب سے اصول و ضوابط ترک کر کے باقاعدہ فائرنگ رینج میں شوٹنگ کی مشق کروانے پرسخت تنقید کی جارہی ہے۔ بھارتی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں بھارت کے پاس گولہ بارود کم پڑھ سکتا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ گولہ بارود کی بہت کمی ہے ٹینک،ایئر ڈیفنس، یٹی ٹینک گائیڈڈ میزائکس، اسپیشلائزیڈمیشن گن میگزینس، گرینیڈٹ اور مان فیوز جیسی چیزوں کی بھاری کمی ہے اگر مکمل طور پر جنگ چھڑ گئی تو ان میں سے کچھ چیزیں تو ایک ہفتے میں ہی ختم ہو جائیں گی آرمی کے ایمینشن روڈ میپ کے مطابق 2019ء تک ہی بھارت کا وارویسٹیج ریزرو 100 فیصد پہنچ پائے گا
اس کے لیے بھی 97 ہزار کروڑ کا بجٹ چاہیے۔ ایک اور فارمولا کے مطابق 23 طرح کے اسلحے بیرون ملک سے امپورٹ کرنے پڑیں گے جبکہ باقی کو ہماری رڈنیس فیکٹریاں تیار کریں گی ایمینشن کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے پہلا فرسٹ لائن، پھر آن ویپن اور تیسرا یونٹ ریزور یونٹ۔یونٹ ریزرو کو بٹالین سطح پر رکھا جاتا ہے سکینڈ لائن کو بریگیڈ اور ڈوجن کے پاس رکھا جاتا ہے اور فرسٹ لائن وہ ہے جسے جنگ میں استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے حکومت اسلحے کی اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج کے پاس گولہ بارود کم ہونا بھارت کے لیے باعث تشویش ہے۔ 1999ء میں کارگل کی لڑائی کے دوران بھارت کو ایمرجنسی نافذ میں اسرائیل سے گولہ بارود خریدنا پڑا تھا۔
جنگ کے حالات میں بھارتی فوج کا گولہ بارود کم پڑ سکتا ہے اسلحہ ذخائر گولہ بارود کی شدید کمی سے دوچار ہیں اور جنگ ہوئی تو 20 دن کے اندر ہی بھارت کے پاس کوئی گولہ بارود نہیں بچے گا۔مارچ میں حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ٹائمز آف انڈیا نے بتایا تھا کہ بھارت کے پاس وسیع جنگ کے حالات میں 20 دن کا ہی گولہ بارود بچا ہے چھ ماہ گزر جانے کے بعد بھی حالات میں مزید بہتری نہیں ہوئی ہے اہلکاروں کے مطابق حکومت اس نازک صورتحال سے واقف ہے اور ضروری قدم بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہا جا رہا ہے
طویل عرصے سے استعمال نہیں ہوئے اسلحے اور 39 ہتھیار فیکٹریوں کی سست پیداوار کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں ملک کے پاس 30 دنوں کی سنگین اور 30 دنوں کی عام لڑائی قابل واردیسٹیج ریزرو ہونا چاہیے تین دنوں کی عام لڑائی اور ایک دن کی سنگین لڑائی کو برابر سمجھا جاتا ہے ایسے میں وارویسٹیج ریزرو مجموعی طور پر 40 دنوں کی سنگین لڑائی کا ہونا چاہیے۔بھارتی فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے بھی وزیر اعظم کے دفترکے نام ایک تفصیلی خط روانہ کیا ہے،جس میں فوجی سربراہ نے اس بات پر زبردست تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی فوج کے آرٹیلری شعبے کے ساتھ ساتھ فضائیہ کے پاس بھی بہت کم اسلحہ رہ گیا ہے۔
Newspapers
ابھی یہ رپورٹ اخبارات کی سرخیوں میں ہی ہے کہ بھارت کی ایک معروف ٹیلی ویڑن چینل نے اپنی ایک سنسنی خیز رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ فوج کو اسلحہ کی کمی کا سنگین مسئلہ درپیش ہے اور اگر موجودہ وقت میں بھارت کو جنگ سے گزرنا پڑا تو اسکی فوج کے پاس موجود اسلحہ کا ذخیرہ محض دس دنوں میں ختم ہوجائے گا۔ فوج نے یہ معاملہ متواتر طور ملک کی سیاسی قیادت کی نوٹس میں لاکر واضح کیا کہ مسلح افواج کے پاس اتنا اسلحہ موجود نہیں ہے کہ ممکنہ جنگی صورتحال کا مقابلہ کیا جاسکے اور اسلحہ کی سطح نازک سے بھی نیچے ہے۔
رپورٹ میں اعدادشمار پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ بیرون ممالک سے درآمد کیا جانے والاحساس قسم کا اسلحہ و گولی بارود جنگ کی صورت میں10دنوں کے اندر اندر ختم ہوجائے گا اور اس میں 125ایم ایم توپ کا ایمونیشن خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سال2009میں اس اسلحہ کا ذخیرہ 5.85 دنوں میں ختم ہوجاتا ، البتہ اس ایمونیشن کے16000رائونڈ روس سے خریدنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جس پر ابھی تک عمل نہیں کیا جاسکا ہے۔
اسی طرح آرٹیلری میں استعمال ہونے والے 122ایم ایم ”ہائی انرجی ریڈیوس چارج” کا ذخیرہ جنگ کی صورت میں صرف 1.27دنوں میں ہی ختم ہوجائے گا اور اس کی خریداری کے لئے دوبارہ ٹینڈر طلب کئے گئے ہیں۔رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ بیرون ملک سے درآمد کئے جانے والے اسلحہ و گولی بارود کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ”آرڈنینس فیکٹری بورڈ”کی طرف سے تیار کردہ اسلحہ کے ذخیرے کی سطح بھی انتہائی نازک ہے۔ اسلحہ کی مقدار کے حوالے سے سال2008میں فوج کی ایک پرزنٹیشن میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ فو ج کے پاس موجود 120ایم ایم مارٹربم جنگ کے صرف7.43دنوں میں ختم ہوجائے گا،155ایم ایم ایس ایم کے ، سموک ایمونیشن 6.29دنوں جبکہ 155ایم ایم گن کا ایمونیشن 4.65دنوں تک ہی دستیاب ہوگا۔
فوج کا کہنا تھا کہ حکومت اس کمی کو پورا کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھارہی ہے۔رپورٹ میں صورتحال کا ایک اور تشویشناک پہلو بھی اجاگر کیا گیا ہے جس کے مطابق آرڈنینس فیکٹری بورڈس کی جانب سے فوج کو غیر معیاری اسلحہ و گولی بارود کی بھاری مقدار بھی فراہم کی گئی ہے۔اس ضمن میں فوج نے اپنی پرزنٹیشن میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ 125ایم ایم ایمونیشن کے86ہزار رائونڈس غیر معیاری یا نقص زدہ ہیں۔اسکے علاوہ بنیادی INSAS رائفل ایمونیشن کے137لاکھ رائونڈس بھی غیر معیاری پائے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ جنگ کی صورت میں فوج کے پاس موجود اسلحہ30دنوں کیلئے کافی ہے تاہم اسلحہ کی موجودہ مقدار انتہائی نازک سطح پر ہے۔ اسلحہ کی کمی کی ایک خاس وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے کئی اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد دفاعی سازوسامان تیار کرنے والی متعدد فرموں کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میںجنرل وی کے سنگھ نے کہا ہے کہ فوج کے پاس اسلحہ کی مقدار اس قدر کم ہوئی ہے کہ جنگ کی صورت میں اسلحہ کی یہ مقدارصرف دودن میں ختم ہوجائے گی۔
فوجی سربراہ نے خط کے ساتھ مرکزی وزیر دفاع کو ایک تفصیلی ڈیمو بھی روانہ کی جس میں فوج کی جنگ چھیڑنے کی صلاحیت کو استحکام بخشنے، جدید چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے سائبر بٹالین کے قیام اورفوج کو جدید خطور پر استوار کرنے کے حوالے سے 10نکات کی نشاندہی کی۔خط میںمرکزی وزارت دفاع پر زور دیا گیا کہ وہ فوج کو درکار اسلحہ اور سازوسامان کے ساتھ دیگر ضروریات کوپورا کرنے کے پروجیکٹوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے تاکہ آرٹیلری کے ساتھ ساتھ فضائیہ کو اسلحہ کی کمی کا جوسامنا ہے
اسے دور کیا جائے گا اور فوج کی جنگ چھیڑنے کی صلاحیت مضبوط اور فعال بنائی جائے۔بھارتی فوج کے سربراہ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حکومت حساس اسلحہ اور ساز و سامان کی خریداری کے ساتھ ساتھ فوج سے منسلک پالیسی اقدامات اٹھانے سے ہاتھ کھینچ رہی ہے جس کے سبب فوج کی جنگ چھیڑنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔