ہم نے قائداعظم کے دیگر بہت سے اقوال کے ساتھ ساتھ اس قول پر بھی جتنا عمل کیا ہے اس کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا وہ آج پاکستانی عوام اس کو بھگت رہی ہے ۔اب تک ہمارے رہنماوں (مذہبی ہوں یا سیاسی)کی اکثریت نے نفرت کے بیچ ہی بوئے ہیں جس کی فصل پک کر اب تیار ہو چکی ہے۔ایمان ،اتحاد ،تنظیم کی افادیت کو سوائے چند ایک رہنماوں کے کوئی اس کو اہمیت نہیں دے رہا ایمان امید ہے ،ایمان امنگ ہے ،ایمان یقین محکم ہے ۔دل قوت ایمان سے اگرمعمور ہو تو انسان ہر طرح کے حالات سے مقابلہ کر سکتا ہے ۔آپ ۖ کا فرمان ہے کہ ایمان امید اور خوف کے درمیان ہے ، اللہ سبحان تعالی کی رحمت کی امید کہ وہ محنت کی جزا دے گا اور اللہ سبحان تعالی کی سزا کا خوف جو بداعمالی ،سستی سے ناکامی کی صورت میں مل سکتی ہے ۔
یہاں یہ نکتہ بھی ہے کہ خوف ہو گا تو مزید محنت ہوگی احتیاط ہو گی ۔اسی طرح آپ ۖ نے فرمایا کہ (مفہوم حدیث ۖ ) ایمان کے تین درجے ہیں پہلا یہ کہ اگر کوئی شخص کسی برائی کو ہوتا دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے دوسرا یہ کہ اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے روکے تیسرا یہ کہ اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا سب سے نچلا درجہ ہے ۔آج پھرپاکستان بھر کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں میں قومی اتحاد کی اشد ضرورت ہے ۔
چیونٹی کتنی کمزورہوتی ہے لیکن یہ مل کر اپنے سے کئی گنا بڑے مردہ جھینگر کو آسانی سے گھسیٹ لے جاتی ہیں۔ اس طرح جن لوگوں میں اتحادواتفاق یکسانیت اور یگانگت ہوتی ہے وہ مشکلات کے پتھروں کو اپنی یکجہتی کی ضربوں سے پاش پاش کر دیتے ہیں۔ اتحاد واقعی طاقت ہے۔ اسلام اتحاد کا پیام لایابھائی چارہ کا درس دیا بلکہ اس پر عمل بھی کیا ، اسلام کے ارکان اتحاد کی دعوت دیتے ہیں۔ نماز تمام امتیازات کو مٹا کر اتحاد کا سبق دیتی ہے۔ایک ہی صف میں کھڑے ہو گے محمودو ایاز والا منظر بن جاتا ہے۔حج مسلمانان عالم میں اتحاد عمل کی روح پھونکتا ہے اورتبادلہ خیال کا موقع فراہم کرتا ہے۔ روزہ میں تمام مسلمان ایک وقت سحری و افطاری کرتے ہیں ۔اور نماز تراویح کا ایک ساتھ ادا کرنے سے محلے،گاوں میں اتحاد و تفاق پیدا ہوتا ہے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔
ہم میں اتحاد کی کمی کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ارکان اسلام کو پابندی سے ادا نہیں کرتے ۔ دین اسلام کی تعلیمات سے ہٹ کر اگر دنیا میں دیگر مذاہب اور دیگر تمام مکتب فکر کی بات کریں دیکھیں تو وہاں بھی یہ معلوم ہو گا کہ قومیں اتحاد ہی کی بدولت کامیاب و فتح مند ہوتی ہیں۔ اور دوسری طرف قومی اتحاد کی تباہی میں جو عناصر ہیں ان میں ذاتی فائدہ، مطلب پرستی، اقتدار کی ہوس مال و زر اور قوم پرستی زر پرستی وغیرہ اس فہرست میں شامل ہیں۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب ایک دوسرے کے بھائی بھائی کہلاتے ہیں۔صحابہ نے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کر دیکھایا کہ تم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک تم دوسرے کے لیے وہی پسند نہ کرو جو اپنے لیے کرتے ہو(مفہوم حدیث) اسلام کی ابتدائی فتوحات میں قومی اتحاد ایک خاص اہمیت کا حامل تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس اتحاد میں کمی واقع ہوتی گئی۔
اس کی وجوہات میں دشمنوں کی شازش کے ساتھ ساتھ اپنوں کی مہربانیاں بھی شامل ہیں حتی کہ صورت حال خانہ جنگی تک جا پہنچی ہے۔ خانہ جنگی میں جتنا اپنوں سے نقصان پہنچتا ہے۔ دشمنوں سے نہیں پہنچتا۔ اگر پاکستانی قوم اپنے قائد کے فرمان اتحاد ،ایمان،تنظیم پر ہی عمل کر لیتی تو موجودہ نااتفاقی کی صورت حال کبھی پیدا نہ ہوتی آج ہماری قوم کا نااتفاقی پر اتفاق ہے اور اتحاد پر اختلاف ہے۔تنظیم ،ڈ سپلن اور نظم و ضبط انسانی کر دار کا سرمایہ ہوتا ہے تنظیم میں برداشت کرنا ،صبر کرنا انتظار کرنا وغیرہ کے عناصر ہوتے ہیں ۔اسلامی احکام و فرائض کو دیکھیں تو نظم و ضبط کا حیرت انگیز منظر نظر آتا ہے ۔
Prayer
نماز کو ہی لیں ،وقت ،ترتیب ،قطار،ایک ساتھ قیام ،رکوع،سجدہ اور سلام وغیرہ ۔دکھ کی بات ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت میں قطار بنانا،صبر کر کے اپنی باری کا انتظار کرنا ،ڈسپلن و ترتیب سے کام کرنا نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس کے بر عکس ترقی یافتہ ممالک (جن کی اکثریت کی غیر مسلم ہے)میں دیکھیں تو آپ کو ہر کام ترتیب ،ہر شخص میں نظم و ضبط نظر آتا ہے ۔ان کی ترقی کا یہی راز ہے اور ہم ایک آزاد ملک کے باسی ہیں اس لیے ایسی پابندیوں سے آزاد ہیں پھر اس پر فخر بھی ہے اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ اس کا احساس بھی نہیں ہے ۔ آپ پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ لیں ہر طرف افراتفری ہے ،نفسانفسی ہے ، سارے غیر مسلموں نے مل کر نیٹو فوج بنائی ، کرنسی ایک کی ،اوراتحاد میں جو فائدے ہیں ان کا ثمر بھی اک عرصے سے ان کو مل رہا ہے دنیا پر ان کی حکمرانی ہے ۔
ایمان ،اتحاد ،اتفاق اور تنظیم وغیرہ کی باتیں اب ہماری نصابی کتب میں ہی رہ گئی ہیں ، جسے پڑھ پڑھ کر ہم بور ہو چکے ہیں اورعوام و خواص کے کن پک گئے ہیں ایمان ،اتحاد تنظیم کی باتیں سن سن کر ۔ اس لیے بھی آپ کو مزید بور نہیں کرتے اور اس دعا کے ساتھ کالم کا اختتام کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اے خدا اے کار ساز تو ہی ہماری قوم و ملک کو ہدایت دے اور ہمارے ملک کی حفاظت فرما ۔اسے تمام آفات سماوی و اراضی سے محفوظ رکھ۔اے ہمارے اللہ ہمارے حکمرانوں ،اپوزیشن اور دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی قائد اعظم کے اس قول ایمان ،اتحاد اور تنظیم پر عمل کرنے کی تو فیق دے۔