نئی دہلی (جیوڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں تباہ کن سیلاب کو 10 روز گزرنے کے بعد بھی معمولات زندگی تعطل کا شکار ہیں، مقبوضہ وادی سے مزید 29 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں۔
بھارت کے مرکزی آبی کمیشن کے سربراہ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کیلیے سیلاب کی وارننگ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں اس لیے بارشوں کے نتیجے میں پاکستان کو سیلاب کی قبل از وقت اطلاع دینا ممکن نہیں تھا۔
اے ایف پی کے مطابق مجاہدین نے امدادی کارروائی کے لیے جہادی سرگرمیاں روک دی ہیں۔ مظفرآباد میں یونائیٹڈ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے بھارتی فوج کے خلاف اپنی تمام سرگرمیاں معطل کردی ہیں کیونکہ ہم سیلاب زدگان کی بحالی کے امور میں مصروف ہیں۔
آئی این پی کے مطابق نئی دہلی میں بھارت کے مرکزی آبی کمیشن کے سربراہ اے بی پانڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بھارت سے شکایت کی ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان بہنے والے دریاؤں کے متعلق مناسب معلومات فراہم نہیں کرتا، آبی وسائل کی بھارتی وزارت کے تحت کام کرنے والے ادارے سینٹرل واٹر کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ ریاستوں کو سیلاب کے بارے میں قبل از وقت معلومات فراہم کرے۔
آئی این پی کے مطابق متاثرہ علاقوں میں سڑکوں پر اب بھی کئی فٹ پانی کھڑا ہے، 2 لاکھ سے زائد افراد تاحال امداد کے منتظر ہیں۔ سیلاب میں پھنسے افراد نے پیر کو بھی امدادی کارکنوں پر پتھراؤ کیا۔ آن لائن کے مطابق کشمیر کے بڑے تاجررہنما شکیل قلندرنے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ہزاروں تجارتی مراکز تباہ ہو گئے ہیں، ایک اندازے کے مطابق سیلاب سے 10 کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے، سری نگر شہر کے تمام تجارتی مراکز تباہ ہو گئے ہیں۔