جب تک خون میں دھڑکن اور نطق سلامت ہے، ہم بولتے اور لکھتے رہیں گے کہ قحط الرجال نے اِس خطۂ بے نظیر کی نَس نَس میں ایسا موادِ بَدبھر دیا ہے جس کی جراحی اِس”اشرافیہ”کے بَس کاروگ نہیں کیونکہ یہ متعفن مواد انہی کی ”کرشمہ سازیوں”سے پیدا ہوا۔ طبقۂ اشرافیہ کو تو”مسجودِملائک”سے اتنا بھی پیار نہیں جتنا یہ اپنے کتوں سے کرتے ہیں۔
گئے دنوں کے اوراق پلٹتے ورق ورق پریہی لکھا نظر آتا ہے کہ قوم کا مقدر کاسۂ گدائی اور اس کے خون سے کشید کیا ایک ایک قطرہ اشرافیہ کے لیے ”کشتۂ شاہی۔ قوم کا ظرف تو سمندروں جیسا لیکن یہ نام نہ ادا شرافیہ، یہ تَن اُجلے مَن میلے لوگ بخیل ابنِ بخیل جنہوں نے اپنی زمینوں کے گرد بڑے بڑے بند باندھ کر بستیوں کی بستیاں اُجاڑ کر رکھ دیں لیکن اُن کی پیشانی عرقِ ندامت سے تَرہوئی نہ حکمرانوں میں اتنی ہمت کہ اُنہیں نشانِ عبرت بنا دیں۔
ہوں گے بہت مداح سرائی کرنے والے لیکن جب ہرطرف بہتی لاشوں کا طوفان اُمنڈ آیا ہو تو صر صر کو صبا کیسے کہہ دوں۔ مجھے تو وہ لاشیں نظر آتی ہیں جن کے مردہ ہونٹوں پریہ سوال چپک کر رہ گیا ہے کہ ”آخر ہمارا قصور کیا تھا؟”۔مجھے تواُس بوڑھے کی دہائی نے بے کل کر رکھا ہے جس کی زیست کا سارا ترکہ نذرِ آب ہوا۔میں تو بچشمِ نَم اُس باپ کی آہ وبکاسُن رہاہوںجس کے کڑیل جوان پانی میںبہہ گئے اورننھی منی نسلِ نَوبھی۔مجھے تووہ ماںبے چین کر رہی ہے جو گود میں اپنے معصوم بیٹے کی لاش اُٹھائے ہرآنے جانے والے کوٹَ کرٹَ کر گھورتی جارہی تھی۔ کہانیاں بیشمار، کہی بھی اوراَن کہی بھی لیکن لکھنے کا یاران ہیں۔سوچتا ہوں کہ بے بس وبے کَس مظلوم ربِ لَم یزل سے یہ فریاد تو ضرور کرتے ہونگے کہ۔۔
نہیں ہے کچھ نہاں تجھ سے خدایا سلوک ہم سے جو دنیا نے کیا ہے
یہ بجاکہ حکمران سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔میاں برادران کی کاوشیں بھی بجا مگر ہم وزیرِاعظم صاحب کا یہ کہا تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ ناگہانی آفت ہے جس کاپہلے سے کچھ پتہ نہیں تھا۔ قوم کو سیلابوں کا سامنا تو 1950ء سے ہے۔چھوٹے موٹے سیلابوں کو چھوڑیے ،اب تک 21 ایسے بڑے سیلاب آ چکے ہیں جن کی تباہ کاریوںکی داستانیںاب بھی زباںزدِعام ہیں۔پھریہ ناگہانی آفت کیسے قراردی جا سکتی ہے؟۔چلیں حکمرانوں کو تو غفلت اورکوتاہی کاطعنہ دے کرچُپ ہورہے کہ اِس کے سواکربھی کیاسکتے ہیںلیکن اُن رہنماؤں کا کیا کیجئے کہ جنہوں نے13 ستمبرکوجشن منانے کااعلان کررکھا تھا؟۔اُس وزیرِاعلیٰ کے لیے سزا کاانتخاب کون کرے گاجوایک ماہ سے اپنے صوبے کوبے یارو مددگار چھوڑ کر اسلام آباد میں دھرناد یئے بیٹھا ہے؟۔
Mian Brothers
ماؤزے تنگ نے کہا”سو طرح کے پھولوں کوبہاردکھانے دو، سو طرح کے افکار کو مقابلہ کرنے دو۔خوشبووہی حاوی ہو گی جو بہتر ہے،رنگ وہی غالب آئے گا جو حقیقی ہے”۔خاںصاحب کے اول توکوئی افکارہی نہیں تھے لیکن اگر کچھ لوگ بضد ہیں کہ تھے تو پھر بھی اُن کے رنگ پھیکے پڑگئے اور قوم نے اُنہیں رَد کر دیا۔ جاوید ہاشمی کہتے ہیں”دھرنوں کا کوئی انجام نہیں، ظالموں نے عمران خاں کے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔راستہ توتھا، بڑا باوقارراستہ۔ خاں صاحب اپنی انانیت کے خول سے باہر آتے اور سیلاب کا بہانہ بنا کر دھرنا مؤخر کر دیتے لیکن وہ توعالمِ غیض میں ہیں۔شایداُن کے نہاںخانۂ دل میںبھی یہ تمنا انگڑائیاں لے رہی ہو کہ
خواہش تو ہے کہ دل کو سکوں آشنا کریں کم ہوں نہ شورشی ںہی لہو کی تو کیا کریں
لیکن ایک تووہ اسیرِانانیت ہیںاوردوسرے اُنہیںیقین دلادیا گیا تھاکہ”وہ”اُن کے ساتھ ہیںاِس لیے کچھ فرق نہیںپڑتاکہ دھرنے میںدس لاکھ لوگ ہیںیادس ہزار۔”وہ”کابھانڈاپہلے جاویدہاشمی نے پھوڑااورپھرپاک فوج کے ترجمان میجرجنرل آصف باجوہ نے کھُل کرکہہ دیاکہ ”فوج کاموجودہ سیاسی بحران سے کوئی تعلق نہیں۔وہ آئین کی پاسداری اورجمہوریت کے تسلسل پریقین رکھتی ہے”۔اُنہوںنے یہ بھی کہاکہ”سکرپٹ رائٹرکی باتوںپرافسوس ہوا۔یہ سیاسی بحران ہے اور سیاسی جماعتوںنے مِل بیٹھ کرحل کرناہے”۔فوجی ترجمان کے اِس بیان کے بعدتحریکِ انصاف کے غبارے سے رہی سہی ہوابھی نکل گئی اورخاںصاحب جوپہلے امپائرکی انگلی اُٹھنے کے اشارے دیاکرتے تھے ،اُنہیںبھی یہ کہناپڑا”عدلیہ سے کوئی توقع ہے نہ فوج سے،جوکچھ کرناہے عوام نے ہی کرناہے”۔یہ بجاکہ جوکچھ کرتے ہیں عوام ہی کرتے ہیںسوال مگریہ ہے کہ کیا20 کروڑکے پاکستان میں تین، چارہزارلوگ انقلاب لاسکتے ہیں؟۔کیاخاںصاحب کے نئے پاکستان کا تصوریہی ہے جس کی جھلکیاںہم دھرنوںمیںدیکھ رہے ہیں؟۔کلامِ منورتودرسِ حیادیتا ہے اوراجدادکاورثہ بھی یہی لیکن خاںصاحب تو مادرپدرآزادمعاشرے کی بنیادوںپرنیاپاکستان استوارکرنے کی تگ ودَومیںہیںاورایساکرتے ہوئے وہ یہ تک بھول بیٹھے کہ قومی وملی یکجہتی کے تقاضے کیا ہیں۔قولِ علی ہے”جلدبازکامیابی سے،تیزمزاج درست اقدام سے اورجھوٹاعزت سے ہمیشہ محروم رہتاہے۔
خاں صاحب کی جلد بازی اظہر من الشمس ہے۔اُنہوں نے عقیل وفہیم اصحاب کے باربارمنع کرنے کے باوجود عین اُس دن دھرنے کا پروگرام بنایا جب پوری قوم جشنِ آزادی کی خوشیاں منارہی تھی۔حکومت نے بھی خاںصاحب سے استدعا کی کہ وہ اپنا دھرنا مؤخر کر دیں لیکن خاں صاحب کوتوجلدی ہی بہت تھی۔لاریب تیزمزاجی اور غضب ناکی میںاُن کا کوئی ثانی نہیں۔وہ عالمِ غیض میںایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جنہیں سُن کر سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔رہی جھوٹ کی بات توکبھی ہم بھی اُن ہیں سچااورکھراانسان سمجھاکرتے تھے لیکن جب وقت نے طنابیں کھینچیں تو قوم نے اپنے سامنے ایک ایسے انسان کو کھڑا پایا جسے سچ بولنے کی عادت ہی نہیں۔اب یہ عالم ہے کہ اُن کے دھرنے میں یا تو تو اترسے جھوٹ بولا جاتا ہے پھر میوزیکل کنسرٹ اور ہلا گلا۔ اگرنئے پاکستان کا یہی تصور ہے تواللہ وطنِ عزیز کو ایسے پاکستان سے بچائے۔