موجودہ پالیسی ناکام ہوئی تو عراق میں فوج بھیجیں گے: جنرل ڈیمپسی

Iraq

Iraq

امریکی(جیوڈیسک) فوج کے سربراہ جنرل ڈیمپسی کا کہنا ہے کہ اگر اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی حملوں کی امریکی پالیسی ناکام ہوتی ہے تو عراق میں فوج بھیجی جا سکتی ہے۔

اس سے قبل امریکی صدر براک اوباما کئی بار اس بات کو دہرا چکے ہیں کہ دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی پالیسی کے تحت عراق میں بھیجی جانے والی فوج لڑائی میں حصہ نہیں لی گی۔ جنرل ڈیمپسی نے کہا کہ ان کو ماننا ہے کہ دولت اسلامیہ کے خلاف بین الاقوامی اتحاد اس شدت پسند تنظیم کے خلاف اچھا اتحاد ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ اتحاد ناکام ہوتا ہے اور امریکہ کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو یقیناً ہم صدر کے پاس اس تجویز کے ساتھ جائیں گے کہ عراق میں امریکی فوج بھیجی جائے۔‘ امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے عراق کے دارالحکومت بغداد کے مضافات میں شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔

امریکہ اگست کے اوائل سے عراق میں دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر 160 سے زیادہ حملے کرچکا ہے مگر یہ پہلی بار ہے کہ امریکی فوج نے بغداد کے قریب ان جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی صدر باراک اوباما کی اعلان کردہ حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں امریکہ نے عراق اور شام دونوں ملکوں میں دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی طیاروں نے شمالی عراق میں سِنیچر کے قریب بھی دولت اسلامیہ کی فورسز پر حملے کیے ہیں جس میں چھ گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ کل ہی پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں دنیا کے تیس ملکوں نے دولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ کی کمان میں بننے والے اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ مگر عراق کے پڑوسی ملکوں ایران اور شام دونوں کو ہی اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

عراق کے وزیر خارجہ ابراہیم الجعفری نے پڑوسی ملک ایران کو شرکت کی دعوت نہ دیے جانے پر تنقید کی ہے اور اس فیصلے کو قابل افسوس قرار دیا۔ ’میں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور پیرس میں ہونے والے اجلاس اور بعد میں اخباری کانفرنس میں بھی اس کا اظہار کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے تمام ہی ممالک دہشت گردی کے خطرے کے بارے میں فکرمند ہیں۔ ایران ہمارا پڑوسی ہے، اس نے ہماری مدد کی ہے اور اسے کانفرنس میں موجود ہونا چاہیے تھا مگر دعوت دینے کی ذمہ داری ہماری نہیں تھی۔‘