١٦ مئی ٢٠١٣ کے انتخابات میں جس جماعت نے سب سے پہلے انتخابی دھاندلی پر شور مچا کر انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا تھا وہ جماعت اسلامی تھی۔سارے پاکستانیوں نے کراچی میں ایک مخصوص جماعت کو اپنی مرضی سے ٹھپے لگاتے اور ووٹ ڈالتے دیکھا تھا۔ بہت سے پولنگ سٹیشنوں پر عملہ بر وقت پہنچنے نہیں دیا گیا تھا۔
ووٹرز کو ڈرایا دھمکایا گیا تھا، انھیں لمبی قطاروں میں کھڑا ہونے پر مجبور کیا گیا تھا اور انھیں اپنی مرضی سے آزادانہ ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی۔افرا تفری کا بڑا ہی عجیب و غریب منظر تھا جس نے پورے کراچی کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ میں ذاتی طور پر جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے اس اچانک فیصلے پر حیران ہوا تھا کہ جماعت اسلامی نے اپنے مخالفین کو کھلا میدان دے دیا ہے جبکہ انتخابی میدان تو تھا ہی نہیں بلکہ ایک مخصوص جماعت نے اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے پورے کراچی کو یرغمال بنا رکھا تھا اور جماعت اسلامی کا بائیکاٹ اسی یر غمالیت کے خلاف ایک احتجاج تھا ۔جماعت اسلامی کی بائیکاٹ کی کال کو اس دن ناکامی کا سامنا کرنا پڑ ا تھا کیونکہ اس کے مخالفین ہر لحاظ سے زیادہ طاقتور تھے اور دنیا تو ہے ہی شہ زو روں کی ،جس کے پاس جتنی طاقت ہوتی ہے وہ اسی کے حساب سے اپنا حصہ وصول کر لیتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں جماعت اسلامی کا طوطی بولتا تھا اور اس کے بڑے بڑے قائدین کراچی سے ہی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں جایا کرتے تھے لیکن پھر جنرل ضیا الحق کے مارشل لا ء کے بعد سارا منظر ہی بدل گیا تھا۔
ایک نئی سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ بنائی گئی جو مہاجروں کے حقوق کی علمبردار بن کر ابھری اور کراچی کی ساری سیاست پر چھا کر کراچی کی انتخا بی سیاست کو اپنی مٹھی میں بند کر لیا ۔ جماعت اسلامی جو کسی وقت کراچی کے عوام کے دل کی دھڑکن ہوا کرتی تھی اب کراچی والوں کے لئے بالکل اجنبی ہو چکی ہے اور اس کے قد آور قائدین ایم کیو ایم کے لونڈوں لپاڑ وں سے ہارنے لگے ہیں ۔ایم کیو مضبو ط ہوتی چلی گئی اور ملک گیر جماعت اسلامی سکڑتی چلی گئی۔ لسانیت قومی سیاست کو ہڑپ کر تی چلی گئی جس کی وجہ سے کراچی کی سیاست ایک ایسی جماعت کے پاس گروی ہو گئی جو لسانیت کی علمبردار ہے ۔اس سوچ کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے کیونکہ کراچی کی لسا نی بنیادوں پر تقسیم نے ایسے خونی منظر کو جنم دے رکھا ہے جس نے انسانوں کو نگلنا شروع کر دیا ہے۔ روزانہ لاشیں گرتی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ کراچی میں لسانیت کا وہی بیج ہے جو ایم کیو ایم نے کسی زمانے میں بویا تھا۔ بڑی کوششیں ہوئیں ،بڑے جتن کئے گئے اور بڑے پاپڑ بیلے گئے لیکن ایم کیو ایم کو کراچی میں شکست نہ دی جا سکی۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ جماعت انتہائی مقبول ہے بلکہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کا تنظیمی ڈھانچہ بڑا مضبوط ہے جس کی وجہ سے اس نے ہر جگہ اپنی دھاک بٹھائی ہوئی ہے۔یہ اسی تنظیمی ڈھانچے کا کمال ہے کہ مئی ٢٠١٣ کے انتخابات میں اس نے اپنی مخالف جماعتوں کو لوہے کے چنے چبوائے اور اپنی مرضی کے نتائج حا صل کرنے کے لئے اس راہ پر نکل کھڑی ہوئی جس کے ڈانڈے انتخابی دھاندلی سے جا ملتے ہیں۔
Jamaat Islami
جماعت اسلامی چونکہ کراچی کی مضبوط جماعت تصور ہوتی تھی اور لسانی سیاست کی سخت مخالف تھی لہذا ایم کیو ایم کی پہلی زد اسی جماعت پر پڑی لہذا اس نے انتخا بی عمل کا بائیکاٹ کر دیا۔اس کی پیروی میں جماعت اہلِ سنت ، ،جمعیت العلمائے پاکستان اور کچھ دوسری مقامی جماعتوں نے بھی انتخا بی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔پی پی پی جس کا سارا زور لیاری والی نشست پر تھا،اس نے انتخا بات کا بائیکاٹ تو نہ کیا لیکن کراچی کے انتخا بی عمل کو دھاندلی زدہ قرار دے دیا۔
اس سارے معاملے میں ایک نئی ابھرتی ہوئی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے انتخابی بائیکاٹ کی بجائے ایم کیو ایم کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا ۔اس نے کراچی کے کئی حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کئے اور یوں کراچی میں وو ٹو ں کے تناسب سے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ڈاکٹر عارف علوی کافی تگ و دو کے بعد کراچی سے منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے جسے ایم کیو ایم ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔اگر کراچی کے انتخا بات منصفانہ،غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوتے تو پاکستان تحریکِ انصاف کراچی کی مزید نشستیں جیت جاتی لیکن ایم کیو ام کی پھرتیوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ یہ تو ایک کراچی کی کہانی ہے اس طرح کے انتظا مات مختلف سیاسی جماعتوں نے پورے ملک میں کر رکھے تھے ۔مسلم لیگ (ن) نے پنجاب پر اپنا حق جتایا اور کراچی والا ڈ رامہ یہاں مختلف انداز میں دھرایا۔
مسلم لیگ (ن) کو افتحار محمد چوہدری، نجم سیٹھی۔ سکول ٹیچرز، غلام انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کے کئی ارکان کا اعتماد ھاصل تھا جس نے سارے انتخا بی عمل کو مشکوک بنا دیا۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب تک جتنے بھی حلقے کھلے ہیں ان میں ایک چیز مشترک ہے کہ ہزار ہا ووٹوں کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔کہیں پیلٹ با کسوں میں بھوسہ بھرا ہوا ہے، کہیں پر بیلٹ پیپر ہی موجود نہیں ہیں، کہیں پر کائونٹر فائل غا ئب ہیں، کہیں پر سیاہی کا رنگ غیر نمایاں ہے اور کہیں پر انگوٹھوں کے نشان ہی موجود نہیں ہیں۔اب ان حالات میں پاکستان تحریکِ انصاف جسے اپنی جیت کا پکا یقین تھا ان انتخابات کو کیسے شفاف مان لیتی۔
PTI
اس نے بڑی دہائی دی، قانون و انصاف کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس کی کسی نے نہ سنی اور اسے مجبورا لانگ مارچ اور دھرنے کا سہارا لینا پڑا۔پی پی پی بھی پنجاب میں چند سیٹوں پر امید لگائے بیٹھی تھی لیکن اس کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا جس کا اظہار پی پی پی اکثر و بیشتر کرتی رہتی ہے۔ان انتخابات میں پی پی پی کا پنجاب سے صفایا ہو گیا جس پر پی پی پی کے تحفظات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان انتخابات کو دھاندلی زدہ کہتی ہے۔ریٹرننگ آفیسرز نے جس طرح جعلی نتائج مرتب کر کے ایک جماعت کو جتانے کے جتن کئے اب کوئی راز نہیں رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی ساری قابلِ ذکر جما عتیں ان انتخا بات کو دھاندی زدہ انتخابات کہتی ہیں لیکن جماعت اسلامی جس نے دھاندلی کی وجہ سے ان انتخابات کا با ئیکاٹ کیا تھا اس کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کھل کر میدن میں آئے اور ان انتخابات کی کریڈیبیلیٹی کو چیلنج کرے جو کہ اس نے تا حال نہیں کیا ۔مولا ناسراج الحق ایک دیندار،باکردار اور کھرے انسان ہیں اور قوم ان سے ایک واضح موقف کی امید رکھتی ہے۔اب اگر مولانا سراج الحق بھی مصلحت پسندی کا شکار ہو جائیں گئے تو پھر عوام کس کی جانب دیکھیں گئے؟وہ چیز جس کی بنیاد ہی جھوٹ اور دھوکہ دہی پر رکھی گئی ہو اسے کسطرح آئینی اور قانونی تسلیم کیا جا سکتا ہے ؟ملک کی ساری جماعتوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ انتخابات ٢٠١٣ میں دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلا ہو اتھا اس لئے موجودہ پارلیمنٹ کا تحلیل کیا جانا جمہوریت اور وطن کی سب سے بڑی خدمت ہے کیونکہ جس چیز کی بنیاد دھاندلی اور فراڈ پر ہوا س کا مٹ جانا ہی بہتر ہوتاہے۔قوم مولانا سراج الحق سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ دھاندلی سے قائم شدہ پارلیمنٹ کو بچانے کیلئے نہیں، بلکہ اسے تحلیل کرنے کیلئے میدان میں نکلیں گئے۔ایک عالمِ دین ہونے کی جہت سے یہ ان کا فرض ہے کہ وہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہیں۔
اگر ساری دنیا بھی مل کر جھوٹ کو سچ کہے تو وہ سچ نہیں بن جاتا اور اگر ساری دنیا سچ کو جھوٹ ثا بت کرنے پر تل جائے تو وہ جھوٹ نہیں بن سکتا۔ ایک با ضمیر انسان کسی بھی حا لت میں اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرتا،وہ سچ کو سچ ہی کہتا ہے چاہے اس راہ میں اسے ساری دنیا کی دشمنی ہی کیوں نہ مول لینی پڑے۔
کراچی کے انتخا بات میں جماعت اسلامی نے اس لئے بائیکاٹ کیا تھا کہ وہا ں پر وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی تھی۔کیا جماعت اسلامی کی قیادت اس بات کا اظہار کھلے عام نہیں کر سکتی اور پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ممبران کو للکار نہیں سکتی کہ آپ پارلیمنٹ کے تقدس پر ایک بدنما داغ ہیں کیونکہ آپ یہاں پر دھاندلی سے داخل ہوئے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ سچ کے اظہار میں مولانا سراج الحق کی آواز قوم کی آواز بنے گی اور قوم کو موجودہ بحران سے نکالنے میں ممد و معاون ثابت ہو گی۔ اہلِ ایمان کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ آزمائش کے لمحوں میں وہ سچ کا ساتھ دیتے ہیں اور کسی کی خوشی یا ناراضگی ان کو سچ کی راہ سے روک نہیں سکتی۔ بقول اقبال۔ ۔۔اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش ۔۔۔میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند۔۔
Tariq Hussain Butt
تحریر: طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم یو اے ای )