بن کے رہے گا نیا پاکستان

Revolution March

Revolution March

ہم تو دھرتی ماں کے پیار میں ڈوب کر اُس کی فریاد پر لبیک کہتے ہوئے انقلاب کے لیے نکلے تھے لیکن حکمرانوں کو ہماری یہ ادا پسند نہیں آئی اور بالآخر اُنہوں نے وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع کر دی۔ شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ حکومت نے عوامی تحریک کے 30 ہزار کارکن پکڑ لیے۔

وہ کہنا تو تیس لاکھ چاہتے تھے لیکن کسی نے مولانا کے کان میں کہہ دیا کہ تیس لاکھ کچھ زیادہ ہی ہو جائیں گے اِس لیے تیس ہزار پرہی اکتفا کرنا بہتر ہے لیکن حکمرانوں کو تیس ہزار بھی ”چبھنے”لگے اور اُنہوں نے کہہ دیاکہ پاکستان کی کل 31 جیلوں میں قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہی تیس ہزار نہیں تو پھر مولانا کے کارکُن کہاں گئے؟۔یہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے قیدی کارکن کہاں ہیں لیکن مولانا جو کہتے ہیں، ہمیشہ سچ ہی کہتے ہیںاِس لیے حکومت کوہمارے یہ تیس ہزار کارکُن توپورے کرکے دینے ہی ہونگے۔اگر حکومت نے ایسانہ کیا تو ہمارا اگلا دھرنا وزیرِاعظم ہاؤس کی چھت پر ہوگا۔اِس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنے سے دستبردار ہو رہے ہیں۔یہ دھرنا تواُس وقت تک جاری رہے گا جب تک دھرنے میںشریک آخری شخص بھی کھسک نہیں جاتا۔

ہم تویہی سمجھتے تھے کہ ایک دور وز بعد ہی حکومت کا”پھینٹی”پروگرام شروع ہو جائے گا کیونکہ حکومت کے پاس گُلوبِلّو، پومی نومی بٹوں کی کمی نہیں لیکن حکومت کاپیمانۂ صبرلبریزہوتے ہوتے ایک ماہ بیت گیااوراب اسلام آبادکی پولیس دھرنادینے والوںپرایسے جھپٹ رہی ہے جیسے شاہیںکبوترپر۔اُس نے توہمارے ڈی جے بَٹ کوبھی نہیںچھوڑا۔قصوراُس کافقط اتناتھاکہ جب سارے”بَٹ”حکومت کے ساتھ ہیںتوپھروہ اکیلاتحریکِ انصاف میں کیوں گھُسا بیٹھاہے؟۔ہمارے بیچارے عوامی تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری تاریخ بھگتنے گئے اوردھرلیے گئے۔وہ تواللہ بھلاکرے الیکٹرانک میڈیاکاجس نے شور مچادیا اور عوامی تحریک کے کارکن اُنہیں چھڑالائے۔ہم پہ الزام ہے کہ ہم نے PTVپرقبضہ کیا،پارلیمنٹ کاگیٹ توڑااورریڈزون کے درختوںکوآگ لگادی۔یہ بجالیکن پوری قوم جانتی ہے کہ مُرشدنے صرف گملے نہ توڑنے کااعلان کیاتھا،باقی کسی شے کانہیں۔کوئی بھی غیرجانبدارمبصرآکردیکھ سکتاہے کہ اسلام آبادمیںایک گملابھی نہیںٹوٹااوروہ جوریڈزون کے سارے فُٹ پاتھ اُدھیڑکے رکھ دینے کاالزام ہے،تووہ توہم نے حفاظتِ خوداختیاری کے تحت کیاکیونکہ اسلام آبادمیںپتھردستیاب نہیںتھے۔اگرہم فُٹ پاتھ توڑ کر پتھر حاصل نہ کرتے توپولیس کے ”کھُنے”کیسے سینکتے؟۔

ہم توبڑے سکون سے اسلام آبادمیںبیٹھے تھے لیکن ”شریر”حکومت نے”ایویں خوامخواہ”ہم سے”پنگا”لے کر ہمارے پُرسکون دھرنے کوتہس نہس کر کے رکھ دیا۔سوہم نے بھی سوچاکہ

عجز و نیاز سے تووہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اُس کے آج حریفانہ کھینچئے

اب جس تھانے میںبھی ہمارے ساتھی قیدہوتے ہیں،ہم وہاںدھاوابول کراپنے ساتھیوںکومکھن میںسے بال کی طرح نکال لے جاتے ہیں۔ابھی کل ہی ہمارے کپتان صاحب نے بھارہ کہوکے تھانے پردھاوابولااوراپنے 11 ساتھیوں کو نکال لے گئے۔سونا میوں کاتویہ اصراربھی تھاکہ تھانے کے تمام اہلکاروں کو معطل کر دیا جائے لیکن خاںصاحب نے کمال مہربانی کرتے ہوئے صرف اپنے ساتھیوں کی ہتھکڑیاں کھلوانے پرہی اکتفاکیا۔وہ اگرآئی جی سمیت تمام اہلکاروں کو معطل کر دیتے توملک میںانارکی پھیل جاتی جوخاںصاحب کوہرگز منظور نہیں تھا کیونکہ”نئے پاکستان”میںانارکی کی کوئی گنجائش نہیں۔اب ہم جمعے کو پاکستان کی تاریخ کاسب سے بڑااجتماع کرنے جارہے ہیںاورایک محتاط ترین اندازے کے مطابق اِس اجتماع میںکم ازکم 50لاکھ انقلابیے اورسونامیے توہونگے ہی ۔کیااب بھی حکومت کو پتہ نہیں چلا کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں؟۔اگرطالبان بنّوں جیل توڑکراپنے تین سو ساتھیوں کو چھڑواسکتے ہیں تو کیا ہم اتنے”گئے گزرے”ہیں کہ کسی چھوٹے موٹے تھانے سے اپنے ساتھیوں کو چھڑا بھی نہیں سکتے؟۔

Parliament

Parliament

ہم نے تو پارلیمنٹ پرقبضہ کرلیاتھااورپی ٹی وی کی نشریات بھی بندکروادی تھیںتاکہ ”اُن”کوسہولت رہے لیکن چودھری شجاعت صاحب ”اُدھر”سے حکم لے آئے اورہمیں طوہاََوکرہاََڈی چوک پرواپس آناپڑا۔ہمیںتواب بھی پختہ یقین ہے کہ”وہ”ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ ہمیںاِس کی گارنٹی چودھری برادران اورشیخ رشیدنے دی ہے لیکن پتہ نہیںپاک فوج کے ترجمان میجرجنرل عاصم باجوہ صاحب کیوں”اوکھی اوکھی”باتیں کرنے لگے ہیں۔کل بھی اُنہوںنے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا”فوج سیاست میں ملوث ہے نہ ہی ملک میںجاری سیاسی بحران میںکسی فریق کی حمایت کررہی ہے۔فوج کاشروع سے ایک ہی موقف رہاہے کہ یہ ایک سیاسی مسٔلہ ہے اوراسے سیاسی طریقے سے ہی حل کیاجاناچاہیے۔فوج کسی ایک فریق کاساتھ دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ پوری قوم کی فوج ہے۔ہم نے نہ پہلے کسی ایک فریق کی حمایت کی ،نہ آئندہ کریںگے”۔پاک فوج کے ترجمان کے اِس بیان پرہم پریشان توبہت ہوئے لیکن پھرچودھری شجاعت صاحب نے ”اندرکھاتے”ہمیں تسلی دے دی کہ جنرل صاحب”ایویں مخول”کر رہے ہیں۔

اگرکوئی یہ سمجھتاہے کہ ہم کسی کمزوری کے تحت پارلیمنٹ سے واپس ڈی چوک آئے تو یہ اُس کی بھول ہے ۔اصل معاملہ یہ تھاکہ ایک توہم وہاں محصور ہو کر رہ گئے تھے اوردوسرے اعلیٰ عدلیہ دھمکیوں پراُترآئی تھی اِس لیے ہم نے”کھلی ڈُلی”جگہ پرجانے میںہی عافیت جانی۔اب وہاں تنوربھی لگ گئے ہیں،تازہ سبزیوںاورگوشت کی دوکانیںبھی،موچی نائی بھی اپنی دوکانداری چمکارہے ہیںاورپکی پکائی تازہ روٹی بھی مل جاتی ہے البتہ ”بیوٹی پارلر”ابھی تک نہیں کھلے جس سے خواتین میں بے چینی پائی جاتی ہے۔دروغ بَرگردنِ راوی ہمارے رہنماؤںنے دو،چاربیوٹی پارلروالوںسے رابطہ بھی کیالیکن فی الحال کوئی اپنا پارلر کھولنے کو تیار نہیں۔ لیکن کوئی بات نہیںہم کونساڈی چوک سے جارہے ہیں۔چھوٹے اوربڑے بھائی کاحکم ہے کہ وزیرِاعظم کے استعفے تک ہمیںیہیںرُکناہے اوراتناتوہمیںبھی معلوم ہے کہ وزیرِاعظم صاحب کبھی استعفیٰ نہیںدیںگے اِس لیے جب بیوٹی پارلر والوں کو پکا یقین ہوگیاکہ ہم یہاںسے جانے والے نہیںتودو،چارپارلرکھُل ہی جائیں گے۔

ہم نے تو پارلروالوں کے لیے ہزار روپے کانوٹ ابھی سے سنبھال کر رکھ لیا ہے جس پر”گونوازگو”لکھا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بازار میں تو اب اِس نوٹ کی”کَکھ”قیمت نہیں البتہ ڈی چوک میں کھلے بیوٹی پارلر والوں کو ڈرا دھمکا کریہ نوٹ”چلا”ہی لیں گے۔ ہم نے توشیخ الاسلام کے حکم پر اپنے کرنسی نوٹوں پر”گونوازگو”لکھ لیا لیکن علامہ نے اگلے دِن ہی کرنسی نوٹوں پر نعرے لکھنے کی مہم واپس لے لی۔باخبر”ذرائع”کے مطابق علامہ صاحب کو خواب میںیہ ڈانٹ پڑی کہ”کبھی ریسرچ بھی کر لیا کرو۔جس پر علامہ ہڑ بڑا کر اُٹھے اور ریسرچ کرنے پرپتہ چلاکہ کوئی سیاسی یا غیر سیاسی نعرہ لکھنے سے کرنسی نوٹ محض کاغذ کا بیکار پرزہ رہ جاتا ہے۔اِس لیے انہوں نے اگلے ہی دن یہ حکم واپس لے لیا لیکن عقیدت مندوں کو تو”چونا”لگ گیا۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر