برطانیہ (جیوڈیسک) علیحدگی کے فیصلے پر سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم آج ہو گا اور فریقین ان لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں جنھوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔ دوسری جانب دو تازہ ترین سروے میں کہا گیا ہے کہ آزادی کے خلاف لوگوں کو معمولی سی برتری حاصل ہے۔
سکاٹ لینڈ کی آزادی کے حمایتیوں نے گلاسگو سینٹر میں ایک بڑا اجتماع کیا اور لوگوں کو ’ہاں‘ کا ووٹ ڈالنے کا کہا۔ ان کے قریب ہی آزادی کے مخالفین نے اجتماع کیا اور کہا کہ برطانیہ سے آزادی کے حق میں دلائل کمزور ہیں۔
برطانوی اخبارات دی سن اور دی ٹائمز کے لیے کیے گئے سروے کے مطابق 48 فیصد آزادی کے حق میں جبکہ 52 فیصد افراد اس کے مخالف ہیں۔ تاہم اس سروے میں چھ فیصد ایسے افراد ہیں جنھوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے۔ایک اور سروے جو ڈیلی ریکارڈ کے لیے کیا گیا ہے اس کے مطابق آزادی کے مخالفین 53 فیصد جبکہ حق میں 47 فیصد افراد ہیں جبکہ 9 نو فیصد ایسے افراد ہیں جنھوں نے فیصلہ نہیں کیا ہے۔ مہم کے آخری روز ایلیکس سیمنڈ نے سکاٹ لینڈ کے لوگوں کے نام ایک خط میں کہا کہ ان کے پاس اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔
یاد رہے کہ منگل کو برطانیہ کی تین مرکزی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے ایک عہد پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر سکاٹ لینڈ کے لوگ برطانیہ سے علیحدہ نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سکاٹ لینڈ کو مزید اختیارات دیے جائیں گے۔ یہ عہد برطانوی اخبار ڈیلی ریکارڈ میں شائع ہوا جس پر ڈیوڈ کیمرون، ایڈ ملی بینڈ اور نک کلیگ کے دستخط ہیں۔
واضح رہے کہ سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سکاٹ لینڈ کو مزید اختیارات صرف اسی صورت میں مل سکتے ہیں اگر برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ اس عہد کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں وعدہ کیا گیا ہے کہ سکاٹ لینڈ کی پارلیمان کو ’وسیع اختیارات‘ ایک ’عمل کے ذریعے اور طے شدہ وقت‘ پر دیے جائیں گے۔ اس عمل اور ٹائم ٹیبل کا فیصلہ تینوں جماعتوں کے سربراہان کریں گے۔
دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ تینوں سربراہان اس بات پر متفق ہیں کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے ہی برطانیہ اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ سب کے لیے مواقع اور سکیورٹی فراہم کی جائے۔ ستمبر 1997 یعنی آج سے ٹھیک 17 برس قبل سکاٹ لینڈ کے عوام نے 11 اختیارات کی تقسیم کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے نتیجے میں تین سو سال کے طویل عرصے کے بعد سکاٹش پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آیا تھا۔
تیسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ ہیلتھ سروس این ایچ ایس کی فنڈنگ کے بارے میں حتمی فیصلہ سکاٹ لینڈ کی حکومت ہی کا ہو گا۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور قائد حزب اختلاف ایڈ ملی بینڈ سمیت برطانیہ کی تمام سیاسی قیادت اس کوشش میں ہے کہ سکاٹ لینڈ کے عوام کو قائل کر سکیں کہ وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار نہ کریں۔
برطانوی شاہی محل بکنگم پیلس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سکاٹ لینڈ کے برطانیہ کے ساتھ رہنے یا علیحدگی کا فیصلہ ’سکاٹ لینڈ کے عوام کے ہاتھ‘ میں ہے اور ملکہ برطانیہ اگلے ہفتے ہونے والے ریفرینڈم پر اثر انداز نہیں ہونا چاہتیں۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سکاٹ لینڈ علیحدگی کا فیصلہ کرتا ہے تو برطانیہ کی شمالی سرحد کے پار ملکہ کے کردار پر کیا اثر پڑے گا یورپ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سکاٹ لینڈ کی علیحدگی سے یورپ میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں یا خواہشوں میں شدت آئے گی۔