کراچی (جیوڈیسک) سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات اور چیئرمین واٹر بورڈ شرجیل انعام میمن نے چیئرمین واٹر بورڈ کی حیثیت سے حاصل اپنے اختیارات کراچی میں پانی کی تقسیم اور اس کی مینجمنٹ کے حوالے سے بنائی گئی واٹر مانیٹرنگ کمیٹی کے سپرد کردیے ہیں جس کا نوٹی فکیشن جلد جاری کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔
یہ اعلان شرجیل انعام میمن نے بدھ کو واٹر مانیٹرنگ کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر کیا۔ اس موقع پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے وائس چیئرمین ساجد جوکھیو، ایم ڈی واٹر بورڈ قطب الدین شیخ، ایڈیشنل سیکریٹری بلدیات عبدالرشید سولنگی، پیپلز پارٹی کے نجمی عالم، تحریک انصاف کے حفیظ الدین ایڈوکیٹ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ہمایوں خان، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں بی ایم جی گروپ کے سربراہ سراج قاسم تیلی، کراچی چیمبر کے صدر عبداﷲ ذکی، چیئرمین سائٹ ایسوسی ایشن یونس بشیر، زبیر موتی والا، میاں زاہد حسین، کراچی پریس کلب کے نمائندے عابد حسین اور دیگر بھی موجود تھے جبکہ اجلاس تاخیر سے شروع ہونے کے باعث جماعت اسلامی کے نمائندے مسلم پرویزاور عبدالوہاب واپس چلے گئے۔قبل ازیں میڈیا بریفنگ میں شرجیل میمن نے کہا کہ اس وقت سندھ حکومت اور بالخصوص محکمہ بلدیات میں سب سے بڑا مسئلہ گھوسٹ ملازمین کا ہے اس لیے انہیں آج آخری بار متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی اپنی ملازمتوں پر واپس آجائیں ورنہ انہیں ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
محکمہ بلدیات، ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ، رولر ڈویلپمنٹ اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے گھوسٹ ملازمین کو بھی 48 گھنٹے کے اندر اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہونے کی آخری وارننگ جاری کردی گئی ہے۔ شرجیل میمن نے مزید کہا کہ سندھ حکومت نے رواں سال کے بجٹ میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو بجلی کے بلز کی ادائیگی کی مد میں ماہانہ 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کردی ہے ۔ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ واٹر بورڈ کے چیئرمین کو نئے واٹر ہائیڈرنٹ کھولنے یا کسی بھی قانونی واٹر ہائیڈرنٹ کے بند کرنے کے اختیارات کو مانیٹرنگ کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا جبکہ ادارے میں موجود گھوسٹ ملازمین سمیت وہ ملازمین جو پانی کی چوری میں ملوث ہوں گے انہیں بھی معطل کرنے یا ملازمتوں سے برخاست کرنے کے اختیارات بھی کمیٹی کو حاصل ہوں گے۔ اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ کمیٹی ہر ماہ میں کم از کم دو بار اپنے اجلاس منعقد کرے گی۔
اجلاس میں واٹر بورڈ کے تحت پانی کی تقسیم کار، بلنگ اور ریکوری، بجلی کے معاملات سمیت دیگر امور کا بھی جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ زیر زمین بورنگ کے ذریعے صنعتی علاقوں کو ملنے والے پانی کو بھی قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا اور جو بھی شخص اس پانی کی آڑ میں واٹر بورڈ کی لائن سے پانی چوری کرتا پایا گیا تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ بعد ازاں میڈیا بریفنگ میں صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اس وقت کراچی کو 350 سے 450 ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سال پانی کی نئی اسکیموں کے لئے بجٹ میں 70 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ میں گنجائش سے 30 سے 40 فیصد زائد افراد کی بھرتی کی گئی ہے، 35 کروڑ روپے ماہانہ تنخواؤں کے باعث ادارہ شدید مالی بحران کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب سندھ حکومت کے ماتحت کسی بھی ادارے میں کسی بھی گھوسٹ ملازم کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے بھی تمام محکموں کو واضح ہدایات دے دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کسی کو بھی بے روزگار کرنا نہیں چاہتی تاہم کسی بھی ایسے شخص کو اب مزید تنخواہیں نہیں دی جائیں گی، جو اپنی ملازمتوں پر نہیں آتے۔ سندھ میں چھوٹے ڈیموں کے سوال پر صوبائی وزیر نے کہا کہ سابقہ 5 سالہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں متعدد چھوٹے ڈیمز تعمیر کیے ہیں اور رواں سال مزید ڈیم بنائے جائیں گے۔