جرمنی میں ناخواندگی

Illiteracy in Germany

Illiteracy in Germany

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے افراد ہی غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں لیکن یہ خیال غلط ہے کیونکہ مختلف وجوہات کے سبب نہ صرف ترقی پذیر ممالک میں بلکہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بھی ان گنت افراد غیر تعلیم یافتہ ہیں،جرمنی میں تقریباً آٹھ میلین افراد غیر تعلیم یافتہ ہیں،تحقیق کے مطابق جرمنی میں تقریباً ہر دسواں فرد ٹھیک طریقے سے لکھ سکتا ہے اور نہ پڑھ سکتا ہے۔

جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے کا پہلا قدم نرسری یا کنڈر گارڈن ہے جہاں تین سال کی عمر کے بچوں کو ملکی قوانین کے تحت داخل کروایا جاتا ہے ان بچوں کو سکول جانے کی عمر تک نرسری کا تیکنیکی عملہ اپنی خاص نگرانی میں کھیل کود اور تفریح کے علاوہ روزمرہ زندگی کے آداب اور اہم ابتدائی تعلیمی نکات سے تفصیلاً آگاہ کرتا ہے تین سال نرسری میں رہنے کے بعد زیادہ تر بچے اس قابل ہو جاتے ہیں کہ پرائمری سکول میں قدم رکھتے ہی انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا،بچوں کی ابتدائی تعلیم کے اہم نکات پر توجہ دینے کے علاوہ آداب زندگی کے اصول سکھانے میں والدین کے علاوہ نرسری کا بہت نمایاں کردار ہوتا ہے۔

نرسری میں بچوں کی تربیت موجودہ نظام و قوانین کو مد نظر رکھ کر کرنے کے علاوہ انہیں حروف تہجی اور مکمل جملے ادا کرنا بھی سکھایا جاتا ہے یہ بچے جب پرائمری سکول میں قدم رکھتے ہیں تو پہلی کلاس سے ہی انہیں جرمن گرائمر،حساب ،اور دیگر مضامین کی طرف توجہ دی جاتی ہے مثلاً سوشل سٹڈی ،جغرافیہ اور غیر ملکی زبان انگلش، فرانسیسی یا سپینش بھی سکھائی جاتی ہے تیسری کلاس سے تمام بچے خود ہی لکھنا پڑھنا سیکھ جاتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں بہترین تعلیمی نظام ہونے کے باوجود کیوں آٹھ میلین سے زائد افراد غیر تعلیم یافتہ ہیں؟

حتیٰ کہ وہ بالغ ہیں ،یہ لوگ تعلیم حاصل کیوں نہ کر سکے؟عمر رسیدہ ہونے تک ان میں شعور کیوں نہ پیدا ہو سکا؟کیوں ایک پانچویں جماعت کے بچے کا رویہ اختیار رکھتے ہیں؟انہیں زندگی میں کس مقام پر کیا کیا روکاوٹیں پیش آئیں؟اور آج یہ کیا سوچتے ہیں؟ محقیقین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علم جتنا بھی حاصل کیا جائے کم ہے اور اس کی عمر کبھی نہیں گھٹتی بلکہ روز بروز بڑھتی ہے،جرمنی میں کچھ افراد کا تعلیم حاصل نہ کرنے کی چند بڑی وجوہات ہیں جن میں بیماری ،والدین کی عدم توجہ اور فیملی مسائل سر فہرست ہیں،ایک مطالعہ کے مطابق ان افراد کا شمار اَن اَلفابیٹ میںاس لئے ہوتاہے۔

یا تو وہ ذہنی و جسمانی طور پر ایب نارمل ہوتے ہیں یا گھریلو مسائل کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے،سکول سے غیر حاضری کے سبب ہمیشہ فیل ہوتے اور ایک دن سکول سے خارج کر دئے جاتے ہیںسکول ایڈمنسٹریشن ایسے بچوںکے والدین کو مشورہ دیتی ہے کہ اپنے بچے کو سپیشل سکول یا معذور بچوں کے انسٹی ٹیوٹ میں داخل کروائیںاور والدین کو بغیر چوں چراں عمل کرنا پڑتا ہے،تجزیہ کاروں کا کہنا ہے خاندان میں تعلیم کی کمی بچوں پر اثر انداز ہوتی ہے،غیر تعلیم یافتہ والدین بچوں کی پڑھائی پر توجہ نہیں دے پاتے اور بچے اس عدم توجہ کے سبب سکول یا پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے اور مستقبل میں شدید مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔

ایک سروے رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ چھپن فیصد والدین کا غیر تعلیم یافتہ ہونے کے سبب ان کے بچے تعلیم حاصل نہ کر سکے ،فنکشنل اَن الفابیٹزم کا آغاز جرمنی کے بحران اور جنگ کے زمانے سے ہوا اور اس کا اثر آج بھی جاری ہے ، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو جنگ ، غربت اور دیگر سیاسی کرائسس ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ان کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے ،ایشیا کے چند ممالک کے علاوہ افریقہ کے ترقی پذیر ممالک یا ایسٹ یورپی ممالک میں تعلیم کا فقدان ہے۔

Poverty

Poverty

ان ممالک میں آئے دن پیش آنے والے سیاسی واقعات، غربت اور بیماری تعلیم کے راستے کی روکاوٹ ہیں، انہی مسائل کی وجہ سے بچے سکول نہیں جاسکتے اور لکھنے پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ نتائج۔ایسے افراد معاشرے میں اپنا مقام پانے میں ناکام رہتے ہیں اور اکثر دگنے دباؤ کے زیر اثر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کشیدگی ،شرمندگی اور نفسیاتی دباؤ انہیں چین نہیں لینے دیتے ،ڈپریش،سٹریس اور خاص طور پر احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں،ایک طرف وہ لکھ پڑھ نہیں سکتے اور دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور کسی قسم کی کاغذی کاروائی میں غیروں کی مدد کے طلب گار ہوتے ہیں ،یہ ہی وہ لمحات ہوتے ہیں جو شرمندگی کا باعث بنتے ہیں اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

دوسری طرف یہ لوگ اکثر تعلیم کے موضوع پر بات چیت کرنے سے کتراتے ہیں اور بہانے تلاش کرتے ہیں کہ میرے پاس وقت نہیں ہے یا میں اپنا چشمہ بھول گیا ہوں اور سوچتے ہیں کہ کاش میں بھی پڑھا لکھا ہوتا،اس جھوٹ سچ کے کھیل سے وہ شدید نفسیاتی دباؤ میں آتے اور بے اعتمادی کا شکار ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایسے ماحول میں غصے کا اظہار کرتے ہیں،کہ مجھے کیا سمجھ رکھا ہے میں پاگل ہوں کیا؟۔کیا میں کبھی لکھ پڑھ نہیں سکوں گا ؟ کیا ساری زندگی ایسے ہی بے وقوف گردانا جاؤنگا؟۔جرمنی میں غیر تعلیم یافتہ ہونے اور ان مسائل سے دوچار ہونے کے باوجود یہ تمام لوگ برسر روزگار ہیں اور اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان افراد کے پاس کوئی ڈپلوما ،ڈگری یا کوئی کوالیفیکیشن نہیں پھر بھی ان میں سے کئی لوگ باورچی ، ہیلپر، بیکری ، یا گوشت کی دکان پر کام کرتے ہیں کیونکہ ایسے پیشوں میں تعلیم کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

جرمنی کے ایک خصوصی تعلیمی ادارے کے ڈائیریکٹر نے بتایا کہ ناخواندگی قسمت کا کھیل نہیں ہے ایک بالغ انسان بھی چاہے تو اپنی عمر کے کسی بھی دور میں پڑھائی شروع کر سکتا ہے،پڑھائی عمر نہیں دلچسپی اور توجہ چاہتی ہے ،آج ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہروں کے علاوہ قصبوں دیہاتوں میں بھی خصوصی تعلیم حاصل کرنے والے افراد کیلئے سکولوں میں مختلف کورسسز کی کلاسوں کا اہتمام ہے ان کورسسز میں غیر تعلیم یافتہ افراد کیلئے لاتعداد چانسز ہیں کہ وہ پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر بھی سیکھ سکتے ہیں،دوران تعلیم انہیں تمام لوازمات کتابیں کاپیاں اور تمام میٹیریل مفت فراہم کیا جاتا ہے۔

بڑے پیمانے پر ٹیکنکل شعبوں کی کلاسسز بھی جاری ہیں، سکول، کلاسز، فیس اور دیگر تمام متعلقہ معلومات کے لئے ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں، ہمارے سکول میں تمام کورسز مفت ہیں۔حالیہ رپورٹ کے مطابق اب تک بیس ہزار سے زائد غیر تعلیم یافتہ افراد ان مراعات سے مستفید ہوئے ہیں،جن میں اکثریت عمر رسیدہ افراد کی ہے۔

کاش پاکستان میں بھی کو ئی ایسی حکومت یا رہنما جنم لے جو خود بھی تعلیم یافتہ ہو اور قوم کو بھی تعلیم اور اچھی تربیت حاصل کرنے کیلئے انسٹیٹیوٹ کا سنگ بنیاد رکھے نہ کہ پارکوں ،سڑکوں یا ان جگہوں کے فیتے کاٹے جائیں جہاں امر اء کو فائدہ اور غرباء کو فرقاء میں تبدیل کیا جائے۔

غریب عوام ان حکمرانو ں کی گولڈن کرسی تو نہیں چھین سکتی لیکن یہ حکمران عوام کی مہربانی، ان غریبوں کے ایک ووٹ سے جیتنے والے ان غریبوں کی ایک روٹی بھی چھین لینا چاہتے ہیں،لیکن یہ لوگ شایدبھول گئے ہیں کہ سب مٹی کے پتلے ہیں اور مٹی میں ہی مل جائیں گے۔

Shahid Shakeel

Shahid Shakeel

تحریر:شاہد شکیل