برطانیہ (جیوڈیسک) ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ خوراک میں چینی کی مقدار کم کرنے کے ہدف کو مزید موثر ہونا چاہیے۔ حال ہی میں عالمی ادارۂ صحت اور برطانوی حکام نے مل کر چینی کے استعمال کو کم کرنے کے لیے سفارشات دی تھیں۔
ان نئی سفارشات کے مطابق اب ہمیں دن بھر میں خوراک سے حاصل ہونے والی کل توانائی کا صرف پانچ فیصد حصہ چینی سے لینا چاہیے، نہ سابقہ سفارشات کے مطابق دس فیصد۔ دوسری جانب بی ایم سی پبلک ہیلتھ جرنل میں شائع کردہ ایک تحقیق کے مطابق اس ہدف کو تین فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
یونیورسٹی کالج لندن اور لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے محققین کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ سفارشات دانتوں کو کیڑا لگنے کی بیماری پر اٹھنے والے اخراجات کو مدِ نظر رکھ کر دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دانتوں کو کیڑا لگنے کی سب سے بڑی وجہ چینی ہے اور اس لیے چینی کے استعمال کو کم کر کے اس مرض پر ’بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ چینی کی مقدار کو صفر سے لے کر کل توانائی کے پانچ فیصد تک بڑھانے سے بچوں کے دانتوں کو کیڑا لگنے کے امکان دگنے ہو جاتے ہیں۔ محققین کا کہنا تھا کہ صنعتی ممالک میں صحت کے کل اخراجات کا دس فیصد دانتوں کے امراض کے علاج پر صرف ہو جاتا ہے۔ تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر فلپ جیمز کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں سے چاکلیٹوں اور چینی سے بھری سافٹ ڈرنکس کو ہٹا دینا چاہیے۔خوراک میں چینی کم کرنے کی سفارشات کے باوجود لوگ سفارش کردہ دس فیصد کے ہدف سے زیادہ چینی استعمال کر رہے ہیں۔
اگر کوئی شخص سافٹ ڈرنک کا 330 ملی لیٹر والا کین پیتا ہے تو اس کو ایک دن کے لیے تجویز کردہ چینی کی کل مقدار کا 50 فیصد حصہ مل جاتا ہے۔ جب کہ دن بھر میں دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والی چینی اس کے علاوہ ہے۔تحقیق کے دونوں مصنفین ’ایکشن آن شوگر‘ نامی تنظیم کا حصہ ہیں اور وہ چینی کے زیادہ استعمال کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔