پاکستان اور پاکستانی

PAKISTAN

PAKISTAN

قارئین کرام آج ایک نئے عنوان کے ساتھ آپکی خدمت میں حاضر ہوں ایک بات آپ سے کرتا چلوں جس کے گرد ہماری آج کی بات گھومتی ہوئی آپکو نظر آئے گی کہ ہم سب ایک دوسرے کو خود سے کم تر کیوں سمجھتے ہیں قارئین کرام ملک پاکستان کا پرچم سبز ہلالی پرچم کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا زیادہ حصہ سبز رنگ پر مشتمل ہے کچھ لوگ اس کی کچھ اور طریقہ سے وضاحت کرتے لیکن میرا خیال کچھ الگ سے ہے کہ سبز رنگ امن، سفید رنگ صلح اور چاند ستارہ روشن خیالی کی علامت ہے جبکہ موجودہ دور میں مادر وطن بد امنی کا شکار ہے اور اس کی وجوہات ہماری اپنی ہی کوتاہیاں ہیں ہم اپنے اندر بہت سی غلط فہمیاں بلا جواز پالے بیٹھے ہیں۔

ہم خود کی اصلاح کے بجائے دوسروں میں خامیاں تلاش کرتے رہتے ہیں ہم مذہبی بھائی،فرقہ وار بھائی،برادری بھائی،رشتہ دار بھائی کو پاکستانی بھائی پر فوقیت دیتے ہیں جیسے ہم کسی ایسی ریاست میں رہ رہے ہیں جہاںپر ہمارے اپنے عزیز اقارب کے علاوہ کسی سے کوئی کام نہیں حالانکہ ہمیں اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ ہم سب پاکستانی ہیں اُن تمام پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا جو ملک پاکستان کیلئے جذبہء سلامتی دل میں رکھتے ہیں موجودہ دور میں جب ملک پاکستان تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑا ہے جہاں ملک سے زیادہ اپنی کُرسی اور انا کی حفاظت کی جا رہی ہے یہاں پر بھی ہم نے لارڈ میکالے کے طبقاتی نظام والے فارمولے کو خود پر مسلط کیا ہوا ہے ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ عام زندگی میں بھی خود کو طبقوں میں بانٹ کر بیٹھے ہوئے ہیں جس کی ایک مثال یوں ہے کہ پولیس کی وردی میں ملبوس شخص کو دیکھتے ہی اس کی پاکستانی شہریت کو نظر انداز کرتے ہوئے پولیس والے کے نام سے جانا جاتا ہے اور پولیس اہلکار عام شہری کو اس طرح دیکھتا ہے کہ جیسے وہ خود ایک بادشاہ اور باقی تمام لوگ اس کی رعایا ہیں اور اُس کی مرضی کیخلاف کسی کو سانس لینے کا کوئی حق نہیں۔

دوسر ی جانب سیاست دان جب اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے ووٹروں جو ایک مسیحا جان کر اُن سے مدد طلب کرنے کی غرض سے جاتے ہیں اُن کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے ایک دوکاندار اپنی دوکان کے سامنے فُٹ پاتھ پر بیٹھے ٹھیہ بان کو دیکھتا ہے کہ یہ میری دوکان کے سامنے کیوں بیٹھا ہے حالانکہ دونوں پاکستانی شہری ہونے کے ناطے قانون اور آئین کی نظر میں برابر ہیں ہم رنگ ونسل اور پرٹوکول کے اس قدر دیوانے ہو گئے ہیں کہ ہم اپنی ایک خواہش کی خاطر کسی کی عزت نفس کی پرواہ کئے بغیر وہ غلطی کر جاتے ہیں جس کی دونوں جہانوں میں کوئی معافی نہیں ہے نوجوان نسل کی بات کریں تو وہ خطر ناک حد تک بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہے جس کی وجہ ہمارا تربیت کرنے کا انداز یا تربیت نہ کرنا شامل ہیںہم زہنی طور پر ایک دوسرے سے دور جا چکے ہیں اگر ہم تھوڑا سا پیچھے چلے جائیں تو ہم جس خطے میں آباد ہیںاس خطہ میں پیار محبت اور اخلاص کو رنگ ونسل اور مذہب پر فوقیت دی جاتی تھی جبکہ جنگ و جدل میں عورتوں اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جاتا تھا۔

Pakistan Protest

Pakistan Protest

اُس وقت کے حکمران مخالف سمت پر موجود عورتوں اور بچوں پر ہونے والے حملے کو خود پر حملہ تصور کرتے تھے لیکن یہاںمادر وطن میں پاکستانیوں سے ہی اپنے ہم وطنوں پر جس طرح ظلم کروایا جاتا ہے انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ میں اُس کی مثال نہیں ملتی بات کریں میڈیا ہاؤسز کی تو گرما گرم خبر کی خاطر اپنے آپ کو روندنے میں بھی کوئی کثر باقی نہیں رہنے دی جاتی اور ملکی مفادات کو اس قدر نظر انداز کیا جاتا ہے کہ چٹ پٹی خبروں کے چکر میں سب کے ہوش گُم ہو جاتے ہیں اور میڈیا ہاؤسز والے بریکنگ نیوز کے چکروں میں ہر وقت بے حس نطر آتے ہیں جبکہ کہ ہمارے ہمسایہ ممالک میں میڈیا آگے ہونے کے باوجود دشمن ممالک کیخلاف پراپیگنڈہ کو ترجیح دی جاتی ہے۔

لیکن ہم اکثر خود کو ہی بدنام کرنے میں فخر محسوس کررہے ہوتے ہیںہم ہر بار کڑوی گولی آخری سمجھ کر نگل جاتے ہیں چاہے جسم پر اس کے جو بھی اثرات ہوں بد اخلاقی کی اگر بات کریں تو دوکاندار، ٹرانسپورٹر اور دیگر شعبہ جات میں گاہک گھیرنے کی خاطر خوشامد اور بعد ازاں بے دیدگی کی تمام حدیںعبورکر لی جاتی ہیں قانون کے محافط خود ہی قانون کو پامال کرتے ہیں جبکہ عام عوام پر قانون مسلط کرنے کیلئے لاٹھی،گولی کی سرکار چلانے سے بھی گریز نہ کیا جاتا ہے ہم دوسروں کو راہ راست پر لانے کیلئے خود کو اندھیروں میں دھکیلتے چلے جارہے ہیں ہم سگریٹ پی کراور اشیائے خورد ونوش استعمال کرنے کے بعد کوڑا کرکٹ کوڑے دان کے اطراف میں پھینک دیتے ہیںاور یہی کوڑا ہمارے لئے بیماریوں کا سبب بنتا ہے جس کا ہمیں کبھی احساس نہ ہوا ہے اور تو اور بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نوکری کے حصول کی خاطر روزانہ دفاتر کے چکر کاٹنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

جبکہ ملازمین نوکری کرنے کو گناہ اور تنخواہ کے حصول کو ثواب سمجھتے ہیں یا اس بات کو یوں کہہ لیجئے کہ جسے نوکری نہیں ملتی وہ نوکری کی تلاش میں ہے اور جسے مل جائے وہ کرنا نہیں چاہتا ملک کے آئین کی نفی کرنے والے لوگ اسائلم کے بعد دوہری شہریت حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن بعد ازاں اسی ملک میں اپنا ایک اچھا مقام ہونے کے خواب روزانہ دیکھتے ہیں اور ان کے خواب کسی حد تک پورے بھی ہوتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ اس شخص نے دوہری شہریت حاصل کیسے کی بلکہ ہم بیرون ملک مقیم لوگوں کو خود سے اعلیٰ مان کر ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور وہ ضرورت مند لوگوں کو خوب استعمال کرتے ہیں اور ہم انجانے میں کئی بار ایسے جھوٹے اور خود ساختہ مسیحاؤں کے کہنے پر ملک سے غداری کر جاتے ہیں تو قارئین کرام بات کو اس قدر وضاحت سے کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمیں متحد ہونے کے ساتھ ساتھ ملک پاکستان کے مفادات اور آئین کی خاطر جدوجہد کرنا ہو گی اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم یہ سوچ لیں کہ ہم سب پاکستانی ہیں جبکہ اس وقت ہماری یہ سوچ ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔

Julius M Bhatti

Julius M Bhatti

تحریر: جولیس ایم بھٹی