تحریر: علی عمران شاہین ہر سال ماہ ستمبر آتے ہی ختم نبوت کے تذکرے شروع ہو جاتے ہیں۔پاکستان اس لحاظ سے دنیا کا ممتاز ترین ملک ہے کہ یہاں بد ترین توہین رسالت کے مرتکب قادیانیوں کو سب سے پہلے قانونی طور پر دائر ہ اسلام سے خارج قرار دے کر اقلیتوں میں داخل کیا گیا۔وہ دن 7 ستمبر 1974 کا تھا جب پاکستان نے کی قومی اسمبلی نے اس حوالے سے بل پاس کیا تھا۔
یہ بل کوئی آسانی سے پاس نہیں ہوا تھا۔اس کے پیچھے اسلامیان ہند اور پھر اسلامیان پاکستان کی خون سے دی گئی قربانیوں کی طویل داستاں تھی۔ ایک طرف سال رواں یعنی 2014میں قادیانیوں کے کافر قرار دیئے جانے کے 40سال مکمل ہوئے تو دوسری طرف اس سال ملعون قادیانیت کے قیام کو 125 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے قادیانیوں نے دنیا بھر میں تقریبات کا آغاز کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا اور بڑا پروگرام29سے 31اگست تک برطانوی شہر ہمپشائر میں ہوا جس میں دنیا بھر سے قادیانی شریک ہوئے۔ یہاں قادیانیوں کے موجودہ خلیفہ ملعون مرزا مسرور احمد نے چار مرتبہ خطاب کیا۔ مرزا مسرور احمد وہ شخص ہے جو مسلمانوں کے بدترین دشمن اور قاتل ممالک کی اسمبلیوں ،امریکی پارلیمان، یورپین یونین اور برطانوی ہائوس آف لارڈز سے بھی خطاب کر چکا ہے۔ ہمپشائر کے اس جلسہ میں جسے قادیانوں کے ہاں ”جلسہ سالانہ” کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، کینیڈا کے وزیر مملکت ٹم اوپل نے بھی حکومتی وفد کے ہمراہ خصوصی شرکت کی۔
یہاں خطاب کرتے ہوئے اس وزیر کا کہنا تھا کہ میں ”عزت مآب” حضرت مرزا مسرور احمد اور ان کی کمیونٹی کے دنیا بھر میں امن و محبت کا پیغام پھیلانے پر ان کی تحسین کرتا ہوں اور کینیڈا ان کا تہ دل سے ممنون ہے… وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے قادیانیت کی اپنے ملک میں آمد کے 100سال مکمل ہونے پر گزشتہ سال قادیانیوں کے نام خصوصی تہنیتی و تعریفی پیغام میں کہا تھا کہ ”آپ (قادیانیوں) کی کمیونٹی نے خوفناک حالات کا سامنا کیا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ کا عالمی سربراہ ”عزت مآب” مرزا مسرور احمد مرد امن ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا پیغام اورآپ کا فلسفہ برطانیہ میں ہی نہیں دنیا بھر میں پھیلے گا” 7ستمبر کو جب پاکستان میں قادیانیوں کو سرکاری سطح پر کافر اور غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے 40سال مکمل ہوئے تواس حوالے سے مطالعہ کے دوران میں مجھے انٹرنیٹ پر قادیانیت کے اپنے اور ان کے یورپی آقائوں کی پھیلائی حیرت انگیز معلومات نے حیران ہی کر کے رکھ دیا۔ یہ تو علم ہی تھا کہ موجودہ دور میں قادیانیت کا مرکز یورپ خصوصاً برطانیہ ہے، جہاں ان کا عالمی ہیڈ کوارٹر بھی قائم ہے۔ یہ بھی علم میں تھا کہ یورپ کے ہر ملک میں ان کے وسیع و عریض اور عالیشان مراکز اور مرزواڑے قائم ہیں۔
ان کے پروگراموں میں یورپی ممالک کے سربراہان حکومت شریک ہوتے ہیں اور ان کی خوب پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ 2008ء میں کینیڈا کے سب سے بڑے مرکز میں مرزا مسرور کے ساتھ ملکی وزیراعظم سٹیفن ہارپر بھی بیٹھا تھا۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ قادیانی غیر مسلم دنیا میں جہاں چاہیں انہیں سر پر بٹھایا جاتا ہے۔ان کے لئے سارے یورپ بلکہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ جیسے خطوں اور ممالک ہر وقت سربراہان حکومت کی طرح کھلے ہیں لیکن ان کی آبادی بھی ان کے بقول کروڑوں میں ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ دنیا کے204 ممالک میں ان کی جماعت احمدیہ موجود و متحرک ہے، بھی حیران کن تھا۔ اور ان کا یہ کہنا بھی حیرت انگیز ہے کہ دنیا میں سالانہ لاکھوں لوگ قادیانیت قبول کر رہے ہیں اور ان کا یہ کہنا کہ گزشتہ 13سال میں سولہ کروڑ لوگ نئے قادیانی بنے ہیں ، مرزائی نبوت جیسا دعویٰ ہی نظر آتا ہے۔ اس وقت قادیانیت کی تبلیغ کا مرکز براعظم افریقہ ہے جہاں بھاری مسلم آبادی رکھنے والے ملک نائیجیریا کے بارے میں قادیانیوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وہاں کی 16فیصد آبادی قادیانی ہو چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خبریں اور جھوٹی اطلاعات پھیلانے والا وہی مغرب اور مغربی میڈیا ہے جس کے دفاع کیلئے مرزا قادیانی کی اولاد اور اس کا مذہب سرگرم عمل ہے جو ان قوتوں کو بچانے اور مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم کرنے کیلئے ہی ایجاد کیا گیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے حوالے سے یہ بات تاریخ میں رقم ہے کہ مسلمانوں کے ”جذبہ جہاد” کے تجزیے کے لئے برطانوی تھنک ٹینکس مل بیٹھے اور ”ہندوستان میں برطانوی سلطنت کا دور” کے نام سے رپورٹ تیار کی جس میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کے جہاد کے خلاف ایک شخصیت تیار کرنی ہو گی سو پھر مرزا کا انتخاب ہوا۔
Jihad
یوں یہ مذہب بنا جس نے انگریز کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کو قطعاً حرام قرار دیا۔ یہ سلسلہ صرف اس دور کے انگریز تک محدود نہیں تھا بلکہ آج بھی دنیا بھر میں قادیانیت اسی عقیدے اور عمل کی پیروکار ہے اور ان کے ہاں جہاد فی سبیل اللہ کا تصور سرے سے موجود نہیں بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر جس قدر بھی مظالم بیت جائیں، وہ اس کی معمولی سے معمولی مذمت نہیں کرتے۔ اس کی ایک وجہ تو دنیا بھر کے اسلام دشمنوں کو راضی رکھنا اور انہیں اپنے ساتھ ملائے رکھنا ہے تو دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قادیانیوں کے ہاں ان کے علاوہ کوئی دوسرا مسلمان کہلانے والا مسلمان ہی نہیں ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے ملعون مذہب کی باتیں بھی حیران کر دینے والی ہیں۔اس کا کہنا تھا کہملکی اور دینی معاملات میں انگریز ہی حاکم ہونگے لہٰذا انکی اطاعت فرض ہے اور انکے خلاف خروج یا بغاوت حرام اور گناہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ خود مرزا غلام احمد قادیانی بھی اللہ کا نبی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار ہی ہدایت پر ہیں باقی تمام لوگ کفر اور گمراہی پر ہیں۔مرزا غلام احمد قادیانی کا کہنا تھا کہ ہندؤوں کے بھگوان کرشن کی روح اس کے جسم میں حلول کر گئی ہے تاکہ وہ ہندؤوں کا بھی محبوب بن جائے۔ کرشن کو وہ ہندوئوںکا نبی بھی مانتا تھا۔ قادیانیوں کے بقول اسلام کے علاوہ ہر مذہب سچا ہے۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ قادیانیوں کو ابتدائی دور میں انگریز حکومت سے جو تعاون ملا وہ آج بھی اسرائیل کی شکل میں باقی ہے اسرائیل نے قادیانیوں کے لئے کئی مراکز کھول رکھے ہیں حتیٰ کہ ان کا ایک عالمی مرکز بھی اسرائیلی شہر حیفا میں ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے علماء اسلام میں فاتح قادیانکا لقب پانے والے مولانا ثناء اللہ امرتسری سے مباہلہ کیا کہ اگر آپ حق پر ہیں تو میری موت پہلے ہوگی اور اگر میں حق پر ہوں تو آپ کی وفات مجھ سے پہلے ہوگی اور جو باطل پر ہوگا۔ اللہ اسے کسی مہلک بیماری طاعون یا ہیضہ وغیرہ میں مبتلا کریگا۔مرزا غلام احمد قادیانی اس مباہلہ کے ایک سال بعد 25 مئی 1908 عیسوی کو لاہور میں بعد نماز عشاء اسہال میں مبتلا ہوا اور بالآخر 26 مئی بروز منگل دن چڑھے لیٹرین میں اوندھے منہ اپنی نجاست کے اوپر گر کر اس کی ہلاکت ہوئی۔مولانا ثناء اللہ امرتسری مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات کے بعد پورے چالیس برس زندہ رہے۔ آپ کی وفات 15 مارچ سنہ 1948 عیسوی کو اسی برس کی عمر میں ہوئی۔
یہی قادیانی آج بھی دنیا بھر کی اپنی پشتیبان اسلام کش طاقتوں سے پاکستان پر دن رات دبائو ڈلوا رہے ہیں کہ وہ قادیانیوں کو دوبارہ مسلمانوں کی فہرست میں شامل کرے کیونکہ1984ء تک تو قادیانیوں کا عالمی مرکز پاکستان تھا ۔1984ء میں قادیانیت پر کاری ضرب لگاتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے مزید آئینی ترامیم کر کے انہیں پابند کیا کہ وہ نہ تو خود کو مسلمان کہلوا سکتے ہیں اور نہ اپنے مرزواڑے کو مسجد قرار دے سکتے ہیں، نہ اپنے اٹھک بیٹھک اور ٹکریں مارنے کو نماز قرار دے سکتے ہیں یوں 1984ء میں مرزائیت اپنا مرکز لندن لے گئی تو : پہنچی وہیں یہ خاک جہاں کا خمیر تھا اور اس بات سے بھی انکار کوئی نہیں کر سکتا کہ مسلمان اس خاک کو جہنم کا ایندھن بنانے تک چین سے نہیں بیٹھ سکتااور ختم نبوت کے دفاع میں قادیانیت کا پیچھا تا قیامت جاری رہے گا۔