تواز ن شاید اس دنیا کا سب سے بڑاسچ ہے۔انسان توازن کھو دے تو اس کے اپنا وجود خود اس کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور آدمی تیورا کر گر جاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ انسان کو توازن کیوںکر حاصل ہو تو اس کا جواب صرف ایک ہے یعنی میانہ روی۔ یہی اعتدال کی راہ ہے یہی درمیانی راستہ۔ یہی عقلا کی روش ہے یہی فطرت کی آواز ۔یہی حق پسندی ہے یہی دین کا تقاضا۔ یہی اہل دل کا مسلک یہی صاحبان بصیرت کاوطیرہ۔جب ہم یہ سب نہیں اپناتے تو توازن سے محروم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہی ٹھوکر ہمیں افراط وتفریط کی اندھی وادی میں دھکیل دیا کرتی ہے۔
جہاں انتہا پسندانہ نظریات کا راج ہوتا ہے۔جس کی انتہا ئی صورت فکری دہشت گردی ہے۔ آج ہم اسی کیفیت کا شکار ہی نہیں ہوئے اس کے عادی بھی ہو چلے ہیں ۔اور وہ بھی اس حد تک کہ ہمیں صیاد سے گلارہا ہے نہ اب زندان سے الجھن ہوتی ہے۔ اس قیدمیںہی ہم سکون پاتے اور تسکین کا سامان ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ کیا آج ہمارے حالات اسی پہلو کی عکاسی بلکہ تصویر کشی نہیں کرتے ؟؟کیا پارلیمان کے اندر اور با ہرجاری جاریسیاسی ڈرامے کا پلاٹ یہی انتہا پسندی نہیں ہے ؟؟؟
ملک کی موجودہ حالت دیکھتے ہیںتو رہ رہ کر یہی جملہ ذہن کے گنبد میں کسی بازگشت کی طرح گونجنے لگتا ہے”جھوٹ اتنا بولو کہ وہ سچ لگنے لگے۔پھر تم سچ بھی بولو گے تو لوگ اس پر اعتبار نہیں کریں گے”۔جمہوریت ،آئین اورانسانی حقوق کے حوالے سے اتنے جھوٹ بولے گئے ہیں کہ اب تو انکے تصور سے بھی جی اوب سا جاتا ہے ،ابکائی آنے لگتی ہے۔نیم زندہ،مصلحت میں لپٹے ،جذباتیت میں ڈوبے،مفادات میںچپڑے،خواہشات میں لتھڑے یہ سارے” سچ” اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں ۔ دھن ،دھونس ،دھمکی ،دھاندلی اور دھرنے کی سیاست نے جن لوگوں کو بے نقاب کیا ہے وہ وہی مخلوق ہے جوناجانے کب سے اپنے رہنما اور مسیحا ہونے کی مدعی ہے۔
اس سیاسی بحران کاکچھ اور فائدہ نہ بھی ہوا ہوتو اتنا تو ضرور ہوا کہ بہادروں کی کلی کھل گئی اور نقاب پوشوں کے رخ کا نقاب الٹ گیا اوروہ یوں بے نقاب ہوئے کہ اپنا سارا اعتبار کھو بیٹھے۔ساتھ ہی ساتھ یہ ظاہر کر گئے ہمارا اس اصل المیہ” اعتماد کا بحران ” ہے ،اعتبار کا فقدان ہے۔میں اپنے پڑھنے والوں سے اپیل کروں گا کہ کوئی” بولڈ سٹیپ ”اٹھانے سے پہلے یہ جان لیں کہ گیند بہت سوئنگ ہورہاہے۔اور یہ بال بھی پرانی ہے سو اس ریورس سوئنگ کے کھیلنے کا بہترین طریقہ یہی ہے ہٹ لگانے میں غیرمعمولی تاخیر کی جائے ورنہ وہ بولڈ بھی ہوسکتے ہیں ۔سو ابھی کوئی بھی رائے قائم نہ فرمائیں ۔تیل اور تیل کی دھار کے ساتھ ساتھ وقت کی رفتار اور جمہوری بیوپار پر بھی نظر رکھیں۔
میں بڑا جذباتی آدمی ہو ں سو میں خود کو رائے قائم کر نے سے روک نہیں پایا۔ہو سکتا ہے میری رائے غلط ہو ۔میں بہر حال یہی سمجھا ہوں کہ”میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں۔
گزشتہ کئی روز سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے۔ سیاسی بحران کا شکریہ کہ اس بازار میں بھی رونق در آئی ہے اورخاصی چہل پہل دکھائی دیتی ہے۔یہ دیگر بات کہ معززایوان موجودہ صورت حال میں بھی ہاؤس فل نہیں ہے۔صرف اراکین کی شرکت لازمی نہ ہوتی تو ہماری حکومت دھرنے کے شرکاء کے برابر لوگ ضرور اکٹھا کر لیتی ۔چند سو گلو بٹ تو گوجرانوالہ ہی سے پکڑے کر لائے جا سکتے تھے۔ اب صورت احوال یہ ہے کہ تقریروں کا مقابلہ جاری ہے۔بوجھل ،بے سروپا،مقصدیت سے عاری مفاد پرستانہ تقریریں ۔جنہیں سننے کا حوصلہ اسمبلی میں موجود افراد ہی میں ہو سکتا ہے۔ اور وہ یوں کہ جواباً انکی باری بھی آنی ہے۔ویسے دو ملتانی شہزادے اس سلسلہ میں ہاتھ کر گئے ہیں ۔اپنی اپنی سنانے کے بعد وہ ایوان کو چھوڑ کر چلتے بنے۔
Terrorist
تو اور ایک نے تو آئندہ کیلئے توبہ بھی کر لی۔ کوئی پوچھے کہ بھائی اس بحرانی کیفیت میں آپ معاملے کو سلجھانے آئے تھے یا مزید الجھانے۔ سب کو جمہوریت کا بخار چڑھا ہوا ہے ۔دو ایک کو تو یہ اتنا چڑھا کہ وہ کہ وہ شاہ سے وفاداری میں جذباتیت کی آخری حد بھی عبور کر گئے اور اب تک انکی واپسی نہیں ہوئی۔ ہمارے وزیراعظم نے بھی بلآخر ایوا ن کا راستہ دیکھ ہی لیا۔ اور وہ مسلسل اپنی ”مرضی” کے مقریرین سماعت فرما رہے ہیں۔ملتانیوں کی دہشت کے کیاکہنے ۔باغی کو سننے کی غلطی کے بعد آجناب فوراً سنبھل گئے اور دوسرے ملتانی کی تقریر کے دوران ایوان سے غائب پائے گئے۔بعض لوگوں کو سننا واقعی بڑے دل گردے کا کام ہے۔اور وہ بڑبولا بھی ہو اور آپ کا مخالف بھی تو یہ کام اور بھی دشوار ہو جایا کرتا ہے۔
یقین مانیں پچھلے بیس پچیس دنوں میں ہمیں اتنا کچھ سننے کو ملا ہے کسی کا چہرہ دکھ کر ہی ہاتھ کانوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔میرے خیال میں پارلیمانی سیاست دانوں نے منیر نیازی کی طرح اس بار بھی بہت دیر کر دی ہے۔اب قوم مزید کچھ سننے کے قابل رہی ہے نہ حق میں ۔یہ لوگ بیچارے سردیوں میں برف بیچ رہے ہیں ۔اللہ انکی مشکل آسان کرے۔ایک معزز رکن کی یہ بات سن کر بڑی ہنسی آئی کہ وہ ناجانے کن کن راستوں سے گزر کر ایوان میں پہنچ پاتے ہیں ۔اور المیہ یہ کہ اپنے گھر واپس بھی نہیں جا سکتے۔واقعی یہ لوگ بڑے مجبور ہیں ۔اتنے کہ دھاندلی اور کرپشن کے باوجود جمہوریت اور حکومت کے ساتھ ہیں ۔انہیں اسکا ”اجر” ضرور ملے گا۔
کا ش انکی یہ مجبوری ذاتی نہ ہوتی۔ایوان کی بجائے عوام کیلئے ہوتی۔جمہوریت کی بجائے جمہور کیلئے ہوتی تو قوم یقینا جی جان سے انکے ساتھ کھڑی ہوتی ۔یہ سیاسی تنہائی اب صرف ایوان میں موجود لوگوں کا نہیں دھرنا مارکہ سیاست دانوں کا بھی مقدر بن چکی ہے۔
بحران نے سب کوبے نقاب کرڈالا۔پارلیمان کے اندر اور باہر کی صورت حال نے سب کو متنازعہ بنا ڈالا۔مجھے دو باتوں کا دلی افسوس ہے ۔دھرنے کے شرکاء کی تضحیک کی گئی۔کسی ایک کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ ان پرشب خون کی کھلے بندوں مذمت کر سکتا ۔ریاکاری اور اداکاری سے ہی دو آنسو بہا دیتا۔گھس بیٹھئے،لشکری ،جتھے،دہشت گردکہنے والے کاش اپنے گریبان میں جھانک سکتے ۔دوسرا دکھ پاک فوج کی تضحیک پر ہوا۔
ایسا پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا کہ پارلیمان میں کھلے بندوں ملک کے اس ادارے پر کڑی تنقید کی گئی کہ جس پر آج بھی قوم آنکھ بند کر یقین کر سکتی ہے۔حکومتی وظیفہ خور وں نے وہ کیا کہ دشمن بھی جس کی جرات کبھی نہ کر پائے تھے۔حکومت نے وقتی کامیابی کیلئے جو چال چلی اس نے بجائے فوج کے خود انہیں بے نقاب کیا۔ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی روشن دن کی طرح واضح ہوگئی کہ وہ واحد ادارہ جس پر قوم کو اعتماد ہے وہ پاک فوج ہے صرف پاک فوج۔ مظاہرین کے خلاف گرنجے برسنے والوں کے اپنے دامن پر آئین شکنی کے نقش ونگار بنے ہیں ۔اپنا اخلاص ثابت کرنے کیلئے انہیںان تمام غیر جمہوری حرکتوں پر قوم سے نہ صرف معافی مانگنی ہو گی بلکہ خود اپنے خلاف بھی ایک مذمتی قراد داد پاس کرانا ہوگی تا کہ آئندہ کیلئے ایسے کسی ڈرامے سے بچا جا سکے۔ورنہ قوم یہ جان جائے گی کہ پیٹ پر لات پڑی تو آپ سب کو جمہوریت کا درد اٹھا ہے۔
آخری اطلاعات ملنے تک پارلیمان اور پارلیمان سے باہرتضحیک آمیز تقریروں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مذاکرات بھی۔انقلاب،آزادی اور جمہوریت کا نام لینے والوں کو کون سمجھائے کہ ہمیں انقلاب نہیں ارتقاء درکار ہے۔ ہمیں تبدیلی نہیں بہتری چاہئے۔جمہوریت نہیں اپنے بنیادی انسانی حقوق اور سماج انصاف کی ضرورت ہے۔ اور جب تک ایسا نہیں ہوتا آمنہ جیسی حوا زادیاں خود کو آگ لگاتی رہیں گی،دھرنے پر دھرنے ہوتے رہیں گے۔مفاد پرست سیاست دان قوم سے کھلواڑ کرتے رہیں گے۔ انتہا پسندی کے ترانے گونجتے رہیں گے،لاقانونیت کا رقص جاری رہے گا۔جمہوریت پرستوں کا چلن یہی رہا تو ہو سکتا ہے ہم ناکام ریاستوں کی فہرست میں ہم پہلا مقام حاصل کریں۔اللہ ہمیں عقل سلیم سے نوازے(آمین )