پیارے دیس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے شمار قسم کے چور پائے جاتے ہیں جیسے بجلی چور،ٹیکس چور،کام چور،دل کاچور(چوروں کی یہ رومانوی قسم عام طور پہ پاکستانی اور انڈین فلموں میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے)پانی چور،الیکشن کے نتائج چرانے والے چور(چوروں کی اس قسم کا آج کل اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیئے بیٹھے شرکاء سے قائدین ایک دن میں کئی کئی بارذکرکرنا نہیں بھولتے بلکہ انہوں نے اپنے منشور میں” سنہری حروفوں ” سے ایسے چوروں کا ذکر کر رکھا ہے ویسے آپس کی بات ہے ” سنہری حروف ” بھی عام طور پہ کالی سیاسی ہی سے لکھے جاتے ہیں )جب ذکر کالی سیاہی کا آئے گا تو یہاں”کالے چوروں ”کاذکر آپ کے گوش گزارنہ کرنا بھی زیادتی کے ذمہ میں سمجھا جائے گا۔
پچھلے چند ماہ سے نئے چور بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو سادہ لوح عوام کو موبائل پہ میسج کر کے لوٹتے ہیں گزشتہ دنوں راقم کو بھی ایک ایسا ہی میسج موصول ہوا جس میں بڑی مہارت سے بیوقوف بنا کر رقم لوٹنے کا منصوبہ تھا میسج کی عبارت کچھ یوں تھی ” بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جانب سے آپ کانام 25000 ہزار روپے کے لئے منتخب کر لیا گیا ہے لہذا آپ درج ذیل نمبر پہ رابطہ کر کے اپنا انعام کنفرم کرالیں ”انعام نکلنے پہ ہمارا معاملہ خوشی سے پھولنے والا نہیں تھا بلکہ خوش اسلوبی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس سیل نمبر سے انعام کی نوید سنائی گئی تھی اسی نمبر پہ کچھ یوں رپلائی دیا۔
انعامی رقم ہماری جانب سے اپنی بہن کے جہیز کے لئے رکھ لیں اور ایسی محبت سے ہم باز آئے،جو دل کو تڑپائے ،ستائے ”اصل میں اس انوکھی قسم کے چوروں کا سادہ لوح عوام کو لوٹنے کا طریقہ کچھ ہوں ہوتا ہے پہلے میسج کے ذریعے انعامی رقم کی خوش خبری کیساتھ ہی ایک نئے نمبر پہ رابطہ کا کہا جاتا ہے انعام کی خوشی میں انعام ہولڈر بتائے ہوئے نمبر پہ رابطہ کرتا ہے تو اسے ایک اور نمبر پہ ایزی لوڈ کروانے کا کہاجاتا ہے مرتا کیا نہ کرتا ،خوش نصیب اپنے بہن بھائیوں ، بیوی بچوں اور دوست احباب سے چوری چوری ،آئو دیکھتا ہے نہ تائوایزی لوڈ کرواتا چلا جاتا ہے جب جیب کا بوجھ کچھ ہلکا ہوتا ہے۔
تب اسے احساس ہوتا ہے کہ ”چور” اس کے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے اسی سے ملتی جلتی ایک اورواردات موبائل کا سہارا لے کر عوام کی جیب کا صفایا کیا جاتا ہے ایک ہمدردانہ میسج سنڈ کیا جاتا ہے جس کی عبارت تحریر کچھ یوںہے ” میں اس وقت ہسپتال میں ہوں میرا یقین کریں میں سخت مصیبت میں ہوں اللہ اور اللہ کے رسول کے واسطے صرف پچاس روپے کا بیلنس سنڈ کر کے مدد کی جائے پہلی ہی فرصت میں آپ کی رقم واپس لوٹا دی جائے گی”آپ ایسے وارداتیوں کو ”ہمدرد چور ” کا نام دے سکتے ہیں آپ یہ حق محفوظ رکھتے ہیں رحم دل اور ہمدردانہ جذبہ رکھنے اور خداترس لوگ ایسے ” ہمدرد چوروں ” کے جال میں باآسانی پھنستے چلے جاتے ہیں جب موبائل اور میسج کا ذکر ہوتو اس موقع پہ ”موبائل چور” کا ذکر نہ کرنا بھی مناسب نہ ہوگا یہ وہ گروپ ہے۔
جن کا مقصد موبائل چھین کر گزربسر کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کا اصل مقصد شریف اور معزز شہریوں کو پریشان کرنا ہوتا ہے یہ راہ چلتے لوگوں سے بڑی آسانی سے موبائل چھین لیتے ہیں جب جیب کا ذکر ہوتو یہاں ”جیب چور ” کا ذکر نہ کیا جائے تو یقینا یہ جیب چوروں کی حق تلفی کہلائے گی جیب چور جسے عرف عام میں ”جیب کترا” بھی کہا جاتا ہے یہ چور بھی کمال کے لوگ ہوتے ہیں یہ اپنے فن میں اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ جب یہ اپنے ”ہاتھ کی صفائی” دکھاتے ہیں تو معزز شہری کو اپنی ”جیب کی صفائی” کا تب پتا چلتا ہے جب وہ اپنا ہاتھ جیب میں ڈالتا ہے انتخابی جلسے ،پبلک مقامات،زیادہ رش والی جگہیں،رکشہ،ویگن،بس اسٹینڈز،بس اور ایئر پورٹ ان کے پسندیدہ مقامات ہوتے ہیں ایک اچھے اور ماہر جیب چور کے لئے وقت کا درست تعین ہی اصل بات ہے۔
عیدالفطر اورعیدالضحی جیسے مواقع ان کے لئے کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں ہوتے کبھی کبھار جیب چوروں کو بونس کے طور پہ خصوصی مواقع بھی مل جاتے ہیں جیسے کہ آج کل ایک مذہبی اور ایک سیاسی جماعت نے شہر اقتدار میں دھرنوں کی صورت میں فراہم کر دیئے ہیں دھرنے کے شرکاء کے قائدین جب یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم عیدالضحی بھی ادھر ہی منائیں گے تو جیب چوروں کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹتے ہیں۔
گزشتہ روز پنجاب کے ایک قصبہ کسووال کے رہائشی اختر سردار چوہدری جو ایک کالمسٹ ہیں انہوں نے فیس بک پہ ایک پوسٹ لگائی جسے دیکھ کو وطن عزیز کے دیگر چور بھی بے ساختہ یاد آتے گئے ان کی پوسٹ میں ” مسلسل جدوجہد” کرنے والے ”کالم چور” کا ذکر کیا گیا ہے جو اپنی ”مسلسل جدوجہد” سے کسی کی عرق ریزی والی محنت پہ منٹوں میں پانی پھیرے کی مہارت رکھتاہے موصوف فیصل آباد کے ایک روزنامہ سے منسلک بھی ہے اور ان کی دیدہ دلیری جسے ہم ”کالم چوری ” کا نام دینے میں حق بجانب ہیں۔
موصوف نے ”قلم قبیلہ” کے نامور لوگ جن میں امتیاز شاکر،رقیہ غزل،یسین صدیق اور اختر سردارچوہدری کے شائع شدہ کالموں کو دوبارہ اپنے نام سے مختلف اخبارات میں شائع کرایاکالم نگار اختر سردار چوہدری نے سوشل میڈیا پہ ایک اہم موضوع کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے ان کی یہی نشاندہی یہ کالم لکھنے کا سبب بنی پچھلے دنوں راقم کو ایک کالم پبلش کی غرض سے موصول ہوا واضح رہے کہ اردونیوزویبwww.unnpakistan.comجو کہ راقم کی ہے یہ کالم بلوچستان کے شہر چمن سے ایک حافظ قرآن نے میل کیا اس صاحب کے بارے میں پہلے بھی سوشل میڈیا پہ دیگر احباب کے پبلش شدہ کالموں کو اپنے نام سے مختلف اخبارات میں کالم چھپوانے کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے ان کے کالم کو جب گوگل پہ سرچ کیا گیا تو معلوم ہوا یہی کالم ایک سال قبل اخبارات کے ساتھ ساتھ مختلف آن لائن اخبارات جسے ویب بھی کہا جاتا ہے۔
Newspapers
پہ اے آر وائی کے نیوز ایڈیٹر جاوید صدیقی جن سے راقم کی بھی شناسائی ہے کے نام سے پبلش ہو چکاہے اب یہاں اس ”کالم چور” کی امان داری کا ذکر نہ ہوتو یہ بھی ایک خیانت کے زمرہ میں آئے گی موصوف جو خود کو ایک مہان کالم نگار گردانتے ہیں انہوں نے کالم کے اصل مالک کے اصل کالم کو”سیم ٹوسیم”یعنی جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پہ ایک لفظ بھی آگے پیچھے نہیں کیااسے کہتے ہیں ”ایمانداری ہماری پالیسی ہے”جرمن میں مقیم راقم الحروف کے دوست شاہد شکیل جن کے کالم ”گردش ایام ” کے نام سے پاکستان کے مختلف اخبارات کی زینت بنتے ہیں وہ بھی کئی بار کالم چوروں کے ہاتھوں اپنی محنت پہ پانی پھرتا دیکھ چکے ہیں ان کے کالموں کوایک ”کالم چور” اپنے نام کروا کر خود کو مہان کالم نگار سمجھ بیٹھا ہے۔
صحافت کو ملک عزیز میں چوتھا ستون سمجھاجاتا ہے اور صحافت سے وابستہ افراد کا کام معاشرے میں مسائل کو اجاگر کرناہوتا ہے نہ کہ کسی دوسرے صحافی کی محنت کواپنے نام منسوب کر کے مسائل پیدا کرنا ہے صحافت کے اس ‘قلم قبیلہ” میں کچھ ایسے لوگ گھس آئے ہیں جن کا صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے لیکن یہ”کالم چور” دوسروں کی محنت کو اپنے نام کر کے خود کو کالم نگار سمجھ بیٹھے ہیں درحقیقت وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں دوسروں کو نہیں اصل میں خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
یہاں پہ ”ادب کی دنیا” کے نامور ستون اشفاق احمد کی کہی ہوئی بات یاد آ رہی ہے ان کا قول ہے کہ ” دھوکہ ایک ایسی چیز کانام ہے جو اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ کے آتا ہے ”سلیس اردو میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے جو شخص دھوکہ دیتا ہے دھوکہ ایک وقت اسی شخص کی جانب لوٹا آتاہے اس کالم کی وساطت سے صحافیوں اورکالم نگاروں کی تنظیموں سے موئد بانہ گزارش کی جاتی ہے کہ صحافت کے ماتھے پہ کلنک کے ٹیکوں کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔