چین کے صدر ژی جن پنگ اپنا تین روزہ دورہ بھارت مکمل کر کے وطن واپس جا چکے ہیں۔ان کے اس دورہ کے دوران بھارت اور چین کے مابین بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے 12معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیںجن میں سے ایک معاہدے کے تحت چین بھارت کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر میں مدد دے گا اور بھارت میں ریلوے کے سست نظام کو تیز رفتار ٹرین سسٹم کے ساتھ جدید اور بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔ اس موقع پر دونوں ممالک کی طرف سے سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی میں تعاون کے مسئلہ پر بھی مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ حالیہ دورہ کے دوران طے پانے والے اقتصادی و تجارتی تعلقات کو فروغ دینے والے معاہدوں کو بھارتی ماہرین بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں لیکن ایسے موقع پر جب چینی صدر بھارت میں موجود تھے۔
ہندوستانی میڈیا کی جانب سے سرکاری ذرائع کے حوالہ سے مسلسل یہ خبریں نشر ہوتی رہیں کہ چینی فوج نے اپنے صدر ژی جن پنگ کے دورہ سے دو دن قبل سے بھارتی علاقوں میں مبینہ دراندازی شروع کر رکھی ہے ۔ ادھر چینی صدر نریندر مودی سے ملاقات کر رہے تھے اور دوسری طرف دعویٰ کیاجارہا تھا کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے ایک ہزار فوجیوں نے ہندوستانی سرحد میں پانچ کلومیٹر اندر داخل ہو کر اس کے سو فوجیوں کو گھیرے میں لے لیا ہے جس پر بھارت نے بھی اپنی تین بٹالین فوج سرحد کی جانب روانہ کی ہے اوریہ کہ لداخ میں لائن آف کنٹرول کے چمور سیکٹر میں بھارت اور چین کی فوجوں کے مابین جنگ کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
بھارت کی طرف سے نا صرف چینی فوج بلکہ شہریوں پر بھی الزامات عائد کئے گئے کہ چینی شہری بھی پیپلز لبریشن آرمی کے تعاون سے ہندوستانی علاقہ میں پانچ سو میٹر تک اندرگھس آئے اور چومار سے تقریبا آٹھ کلومیٹر دور ڈوم چوک علاقہ میں زیر تعمیر نہر کی تعمیر رکوانے کی کوشش کی اس لئے مذکورہ علاقہ میں کشیدگی کی صورتحال جوں کی توںموجود ہے۔ بھارتی میڈیا نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف چین بھارت سے دوستی کے ہاتھ ملارہا ہے، خلوص، محبت اور تجارت کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیاجارہا ہے تو دوسری جانب سرحدی علاقوں میں دراندازی کی جاہی ہے جس سے دونوںملکوں کے تعلقات کی صداقت پر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ اس لئے بھارتی حکومت کو چاہیے کہ اس نے جس طرح کا رویہ پاکستان کے خلاف اختیار کر رکھا ہے اسی طرح چین کی طاقت سے بھی مرعوب نہ ہوبلکہ چینی کو صاف طورپر کہہ دیا جائے کہ مذاکرات اور دراندازی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
بھارت اور چین کے مابین 1950ء میں سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ دونوںملکوں کے مابین 3325کلومیٹر طویل سرحد کا تنازعہ ہے۔چین کا کہنا ہے کہ اکسائی چن اور اروناچل پردیش اس کے حصے ہیں مگر بھارت شروع دن سے ہٹ دھرمی دکھا رہا ہے کہ اکسائی چن چین کا حصہ نہیں ہے۔ 1959ء میں دلائی لامہ ‘ تبت میں شورش کے بعد جب مہاسہ سے آئے تو ہندوستان نے انہیں پناہ دی جس پر دونوںملکوںمیں تعلقات بہت زیادہ خراب ہو گئے ۔ انہی تنازعات کے پیش نظر جون 1962ء میں بھارت اور چین کے مابین جنگ بھی ہوئی جس میں بھارت کو زبردست پسپائی کا سامناکرنا پڑااور اس کے دو ہزار فوجی مارے گئے۔ اسی طرح 1967ء میں ناتھولا اور جیلی پلہ میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے مابین جھڑپیں ہوئیں۔
جن میں بھارتی دعویٰ کے مطابق اس کے ایک سو چالیس فوجی مارے گئے۔ بعد ازاں1977ء میں اندراگاندھی کی انتخابات میں شکست اور1979ء میں مرار جی ڈیسائی کے دور اقتدار میں دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔دسمبر 1988میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے چین کا دورہ کیا جس کے بعد شنگھائی اور ممبئی میں قونصل خانے کھولے گئے۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں بھارتی وزرائے اعظم اور اہم ذمہ داران چین کے دورے کرتے رہے اور سخت کشیدگی کے باوجود بھارت کی جانب سے چین کی طاقت اور قوت کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے تعلقات بحال کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔اس وقت دونوںملکوں کے درمیان تجارت 70بلین ڈالرز تک پہنچ چکی ہے اور کہا جارہا ہے کہ 2050ء تک اس تجارت کا حجم ایک ٹریلین ڈالرز تک پہنچ جائے گا۔
چینی مصنوعات دیگر ملکوں کی طرح ہندوستانی منڈیوںمیں بھی چھائی ہوئی ہیں۔ موبائل فونز، الیکٹرانگ گیجٹس، کھلونے، دیوالی کے پٹاخے اور گرم پانی کی بوتلوں سمیت ہر چیز سستے داموں فروخت ہو رہی ہے ۔ سافٹ ویئر، ہارڈویئروغیرہ چین سے امپورٹ کئے جارہے ہیں۔ اگرچہ اس ساری صورتحال پر ہندوستان کے بعض کاروباری حضرات خوش نہیں ہیں مگر یہ باتیں بھی کی جارہی ہیں کہ اس وقت بھارت کو غیر ملکی زرمبادلہ کی ضرورت ہے جو چین کی سرمایہ کاری سے حاصل ہو گی’ اس لئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پوری کوشش ہے کہ وہ چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرے۔سرحدوں پر کسی مشکل صورتحال سے بچنے کیلئے بھی وہ چین کے ساتھ بہتر تعلقات کو اپنے لئے ضروری خیال کرتا ہے۔
Pakistan
دوسری جانب چین اور پاکستان کے مابین دیرینہ تعلقات بھی بھارت سرکار کی آنکھوںمیں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں ۔ وہ سمجھتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ملکر وہ جس طرح پاکستان کو مزید نقصانات سے دوچار کرناچاہتا ہے چین کی پاکستان کے ساتھ لازوال دوستی اور تعلقات اس کی راہ میںبہت بڑی رکاوٹ ہے۔چینی صدر نے بھارت سے قبل پاکستان کا دورہ کرنا تھا مگر دوپارٹیوں کی طرف سے چند ہزار افراد کے ہمراہ اسلام آباد میں ایک ماہ سے جاری دھرنوں کی وجہ سے وہ ابھی تک پاکستان نہیں آسکے۔ آج کے حالات میں جب چاروں اطراف سے پاکستان کا گھیرائو کیاجارہا ہے چینی صدر کے دورہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
ان کی آمد پرتیس ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہونا تھے جس سے پاکستان کی معیشت میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی مگران کے دورہ سے اسلام دشمن قوتوں خاص طور پر بھارت کو پاکستان اور چین کی لازوال دوستی اور مضبوط دفاع کا جو پیغام جاتا اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے جس سے کسی طور انکار نہیں کیاجاسکتا۔چینی صدر کے دورہ کے دوران پاکستان اور چین کے مابین ہائیڈل، کول اور سولر پاور سے بجلی پیدا کرنے کے سولہ منصوبوں پر مختلف مراحل کے آغاز کے معاہدوں پر دستخط ہونا تھے جس کے نتیجہ میں اگلے چار سال میں سسٹم میں 21000میگاواٹ سسٹم بجلی کا اضافہ ہونے کا امکان تھا تاہم چینی صدر کا دورہ موخر ہونے سے توانائی اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے درجنوں معاہدے التواء میں پڑ گئے ہیں۔بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ چین کی بھارت سے زیادہ قربت اور معاہدے پاکستان کیلئے فائدہ مند نہیں ہے۔
پاکستان کوچاہیے کہ وہ اپنی سفارتکاری کو بہتر اور چینی صدر کے دورہ پاکستان کو جلد ازجلد ممکن بنائے۔ دھرنا پارٹیوںکو بھی چاہیے کہ وہ انا پرستی چھوڑ کر ملکی سلامتی و استحکام کیلئے سوچیں’ اپنے موقف میں لچک پیدا کریں اور مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں۔اسی طرح حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب ‘ جس نے زلزلے، سیلاب ہوں یا کوئی اور دفاعی نوعیت کا کوئی مسئلہ’ ہمیشہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی مددوتعاون کا حق ادا کیا ہے۔
Muslim Countries
اسے ساتھ ملا کر مسلم ملکوں پر مشتمل مضبوط بلاک بنانے کی کوشش کرے تاکہ اغیار کی سازشوں پر قابو پایا جاسکے۔ آخر میں ہم سعودی عرب اور چین کے اس لحاظ سے بھی شکر گزار ہیں کہ انہوںنے سیلاب کے آغاز پر ہی متاثرین کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کروائی بلکہ سعودی عرب نے تو عملی طور پر متاثرہ پاکستانیوں کی مدد کیلئے ریلیف سرگرمیاں بھی شروع کر رکھی ہیں جو یقینا لائق تحسین ہیں۔پوری پاکستانی قوم برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے اس کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔