زندگی کے لیے مہلک کاربن کا معمہ

Carbon

Carbon

امریکہ (جیوڈیسک) ’ایتھیکل الیکٹرانک‘ نامی کمپنی سے ایک پمفلٹ موصول ہوا۔ یہ کمپنی خدا کی جانب سے دیے سورج اور ہوا سے تیار کی گئی صاف ستھری توانائی فراہم کرتی ہے۔ میں نے پڑھا کہ وہ ’ایک نئی دنیا کی تعمیر میں لگے ہیں‘۔ میں آن لائن ہوئی اور ان کے بارے میں جاننے کے لیے گوگل کیا۔ ان کی مضحکہ خیز کارپوریٹ ویب سائٹ سے مجھے چلا کہ ’اچھی (توانائی کی) کمپنیاں ہیں، خراب، میلی اور سڑی ہوئی کمپنیاں بھی ہیں‘۔

حقیقت بھی یہی ہے۔ امریکہ میں کاربن سے ہونے والی آلودگی کا پینتالیس فیصد اسی توانائی سیکٹر کی دین ہے۔ بیشتر افراد اس بات سے آگاہ نہیں ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں جس بجلی کا استعمال کرتے ہیں وہ ان گندی کمپنیوں سے آتی ہے جو توانائی کی پیداوار کے لیے کوئلہ اور تیل جیسی اشیا کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ہوا اور پانی آلودہ ہوتتے ہیں، زمین اور جنگلی حیات تباہ ہوتی ہے، ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے، عوام کی صحت متاثر ہوتی ہے اور عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔

کاربن کی آلودگی سے ہم سبھی اس وقت متاثر ہورہے ہیں۔ تو آخر اس کے ساتھ ہماری ابتدا کیسے ہوئی جس میں ہم آج بھی پھنسے ہیں؟ سنہ 1824 میں فرانسیسی ماہر کیمیا جوزف بیپٹسٹ فوریئر نے ایک برتن اور ڈھکن کا استعمال یہ پتہ کرنے کے لیے کیا تھا کہ فضا حدت کو جذب کرتی ہے اور اس زمین کو زندہ رہنے کے لائق بناتی ہے۔

تقریباً اسی وقت دنیا میں صنعتی انقلاب بھی برپا ہوا۔ بڑے پیمانے پر کوئلے سے بجلی کی پیداوار ہونے لگی اور اسی کے ساتھ کاربن میں اضافے کی شروعات بھی ہوئی۔ سنہ 1896 دو سائنس دان سونٹے آکسٹ آرہینس اور نٹ جان کے لیے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے دریافت کیا کہ کوئلہ اور تیل جلانے سے کاربن ڈائی اوکسائیڈ عالمی درجہ حرارت کو متاثر کر سکتا ہے۔

لیکن تیل کے اصراف سے متعلق اعداد و شمار نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور فکر مند ہونے کے لیے کچھ ہزار سال کا وقت درکار ہے۔ اس لیے ہم نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔

1960 کی دہائی میں چارلز کیلنگ نے یہ دریافت کیا کہ ماحولیات میں کاربن کی سطح کا براہ راست تعلق اس بات سے ہے کہ کچا ایندھن کتنا جلایا جاتا ہے اور اس کی سطح میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2010 میں ناسا نے اس بات کا اعلان کیا کہ سنہ دو ہزار سے دو ہزار نو کے عشرے کے دستیاب ریکارڈ کے مطابق 2010 سب سے زیادہ گرم سال تھا۔ اور تب سے ہماری زندگی میں کاربن کی آلودگی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

اب ہم ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں موسم اپنی انتہا کو پہنچتا ہے، اور اس کا مزاج عجیب ہے اور ہمیں اس کی بڑی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق یورپ میں 2013 میں آنے والے سیلاب سے انشورنس سے تین اعشاریہ نو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسی برس آسٹریلیا کے جنگلوں میں لگنے والی آگ سے تقریباً آٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسی طرح امریکہ میں سمندری طوفان سینڈی سے تقریباً پینسٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

اس وقت کاربن سے ہمیں جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ اس کی قیمت انسانی زندگی، روزی روٹی اور ڈالر ہر طرح سے ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ رواں سال دو جون کو جو کلین انرجی کا پاور منصوبہ شروع کیا گيا ہے اس سے آئندہ پندرہ برس کے دوران کاربن کے اخراج میں تیس فیصد کمی کا امکان ہے۔ ماحولیات کے لیے کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔

چین نے بھی اس سمت میں قدم اٹھایا ہے اور پانچ صوبوں میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے پر کام شروع کیا ہے۔ اس کے مطابق صوبہ شینزین میں 2015 تک کاربن کے اخراج میں اکیس فیصد کی کمی ہوجائے گی۔ جب سے یہ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ ملک کے شمال میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب زندگی میں ساڑھے پانچ برس کی کمی کا امکان ہے تب سے چین نے ملک گیر سطح پر کاربن کی کمی کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ بیجنگ میں 2020 تک کوئلے کے پلانٹ کو بند کرنے کا بھی منصوبہ ہے جس سے فضائی آلودگی میں کمی کا امکان ہے۔

آئیے ہم اپنے سمندروں کی تہہ سے پہاڑوں کی چوٹیوں تک ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔ صحت مند زندگی گزاریں، جانور محفوظ رہیں اور عالمی حدت میں کمی واقع ہو۔ صاف شفاف توانائی کا استعمال کریں۔ جب بھی آپ صاف انرجی کو اپناتے ہیں تو آپ دنیا کو بچانے کا کام کرتے ہیں۔