سیلاب پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہوتا ہوا اب سندھ میں داخل ہو چکا ہے۔ پنجاب میں سیلاب سے کافی تباہی ہوئی۔ تباہی و بربادی کی نئی داستانیں رقم ہوئیں، دیہاتوں کے دیہات سیلابی پانی میں ڈوب گئے۔ گھروں کا سامان اور مال مویشی پانی میں بہہ گئے جبکہ مکین دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ لاکھوں ایکٹر پر پھیلی فصلیں تباہ ہو گئیں۔لا کھوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ پنجاب کے 21اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا جا چکا ہے۔ شیرشاہ بند ملتان میں ڈالے جانے والے شگاف کو پر کردیا گیا ہے اورملتان کا مظفر گڑھ سمیت دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ 9 روز بعد بحال ہوگیا ہے۔
جھنگ، مظفرگڑھ، ملتان اور بہاولپور سمیت کئی متاثرہ اضلاع میں سیلابی پانی کے اترنے کے بعد لوگوں کی اپنے علاقوں میں واپسی کاسفر جاری ہے۔لوگ اپنے تباہ شدہ گھروں، پانی میں ڈوبے کھیتوں ، کھلیانوں اور مویشیوں کے مرنے سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے نئی آزمائش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔دریائے سندھ میں گڈو کے مقام پر پانی کی سطح بتدریج کم ہورہی ہے، گڈو بیراج پر پانی کی آمد 3 لاکھ 39 ہزار جبکہ اخراج 3 لاکھ کیوسک ہے۔ سکھر بیراج پر پانی کی آمد 3 لاکھ 4 ہزار جب کہ اخراج 2 لاکھ 52 ہزار کیوسک ہے، کوٹری بیراج کنٹرول روم کے مطابق پنجاب میں سیلابی پانی کے تقسیم ہونے کی وجہ سے سندھ میں سیلاب کا خطرہ ٹل گیاہے۔
کوٹری بیراج پر پانی کی آمد 93 ہزار 854 کیوسک اور اخراج 56 ہزار 998 کیوسک ہے۔ پاکستان کے آفات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق (20ستمبر تک)مجموعی طور پر پنجاب کے 36اضلاع سیلاب اور طوفانی بارشوں سے متاثر ہوئے۔ سیلاب کی وجہ سے 269شہری اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے جبکہ 450افراد زخمی ہوئے۔ چالیس ہزار سے زائد مکانات تباہ ہو ئے۔3080دیہات اور 2,344,063ایکڑ پر پھیلی فصلیں متاثر ہوئیں۔ سیلاب اور طوفانی بارشوں میں بہہ جانے والے جانوروں کی تعداد 1307 ہے۔
متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 17 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے جبکہ6 لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔ 19 لاکھ سے زائد جانوروں کی ویکسی نیشن بھی کی گئی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں ہلاکتوں کی تعداد 64 اور زخمی 129 ہیں۔ سیلاب سے 130 دیہات متاثر ہوئے جن میں 2682 مکانات مکمل طور پر تباہ جبکہ 6211 مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ 46,489 لوگ اس سے متاثر ہوئے جبکہ 2,048 ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ بہہ جانے والے مویشیوں کی تعداد 1,875ہے۔سیلابی پانی کے اترنے کے بعد علاقوں میں مختلف وبائی امراض پھیلنا شروع ہو گئے ہیںاور جلد کی بیماریوں کے ساتھ ناک، کان اور گلے کی بیماریا ں بھی عام ہو گئی ہیں۔ سکن الرجی کے کیسز سب سے زیادہ سامنے آئے ہیں جبکہ ملیریا، ڈائریا، گیسٹرو، چیسٹ انفیکشن کے مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
متاثرین کے بڑے مسائل میں پینے کا صاف پانی، راشن، ادویات اور زمینی راستوں کی بحالی شامل ہے۔پنجاب میں متاثرہ علاقوں میں پانی کے ساڑھے چار سو نمونے لئے گئے جن میں سے پچاس فیصد سے بھی زائد یعنی 250نمونے آلودہ پانی کے نکلے۔ محکمہ صحت نے متاثرہ کنویں اور ہینڈ پمپس سیل کر دیئے ہیں۔ڈی جی ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر زاہد پرویز نے کہا ہے کہ 29فیصدمتاثرین سانس ، بیس فیصد جلدی امراض اور 17 فیصد بخار میں مبتلا ہوئے۔وزیراعظم پاکستان نواز شریف ، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ متاثرہ علاقوں میں جا جا کر امدادی کارروائیوں کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔
سیلاب کے دوران حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ پاک فوج نے بھی قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ پاک فوج کے جوانوں نے امدادی کاروائیوں کے دوران 55,967افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا، اس دوران 200 ٹن راشن بھی سیلا ب متاثرہ علاقوں میں تقسیم کیا۔فوجی ڈاکٹروں نے 24 میڈیکل کیمپوں میں 19,215 مریضوں کا علاج بھی کیا۔اس کے علا وہ مختلف سماجی و مذہبی تنظیمیں بھی سیلاب متاثرین کی مدد میں پیش پیش رہیں۔ جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن اور جماعة الدعوة کی فلاح انسانیت فائونڈیشن نے سیلاب متاثرین کی مدد میں حتی المقدور حد تک کوشش کی۔
Jamat ud Dawa
جماعة الدعوة کے فلاحی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن (ایف آئی ایف )کا کام سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ 2005ء میں آنے والے زلزلے سے لے کر اب تک ملک میں جتنے بھی سانحات رونما ہوئے اور جتنی بھی قدرتی آفات آئیں، جماعة الدعوة کے رضاکار ہر جگہ ہراول دستے کے طور پر نظر آئے۔پاکستان کے سینئر صحافی طلعت حسین کے بقول کہ ملک میں 2005ء سے لے کر جتنے بھی سانحات ہوئے مجھے ان میں جماعة الدعوة کی مہر نظر آئی، سب سے پہلے ریسکیو کرنے والے اور کھانا پہنچانے والے بھی یہی ہوتے ہیں۔اس وقت جماعة الدعوة کے رضاکار اسلام آباد، جہلم، گجرات، منڈی بہائوالدین، حافظ آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، لاہور، جھنگ، چنیوٹ، نارووال، بہاول نگر، سرگودھا ، مظفر گڑھ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں خدمت خلق کر کے لوگوں کے دل جیتنے میں مصروف ہیں۔
جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید سیلاب متاثرین کی مدد اور دل جوئی کیلئے ہر جگہ خود پہنچے، صورت حال کا جائزہ لیا اور متاثرین کی مدد کی۔ حافظ محمدسعید نے سیلاب سے متاثرہ لاہورکے نواحی علاقوں،حافظ آباد، گوجرانوالہ، وزیرآباد، جھنگ، چنیوٹ، ملتان اور دیگر علاقوں کا خود دورہ کیا۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی طرف سے سیلاب متاثرہ علاقوں میں جاری ریسکیو آپریشن میں28موٹر بوٹس حصہ لے رہی ہیں۔ اس دوران23,430 متاثرین کو سیلابی پانی سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیاجن میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد متاثرین کو فری ٹرانسپورٹ کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔
لوگوں کے گھروں کا سامان اور مویشیوں کو بھی نکالاگیا۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی طرف سے 258 میڈیکل کیمپس لگائے گئے جن سے 96,540 متاثرین سیلاب مستفید ہوئے۔میڈیکل ٹیموں نے کشتیوںکے ذریعے سیلابی پانی میں گھرے متاثرہ مریضوں کا چیک اپ کیا اور ان کو لاکھوں روپے مالیت کی ادویات مفت فراہم کیں ۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی 84 ایمبولینس گاڑیاں ریلیف و ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں ۔ایف آئی ایف کی جانب سے سیلاب متاثرہ علاقوں میں لگائے گئے ریلیف کیمپوں کی تعداد 46ہے جہاں ہزاروں امدادی رضاکار خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ان کیمپوں سے کم وبیش ساڑھے تین لاکھ متاثرین میں پکا پکا یا کھانا تقسیم کیا گیا۔رضا کار کشتیوں، ٹریکٹر ٹرالیوں اور ربڑ ٹیوبوں کے ذریعے گھنٹوں سیلابی پانی میں سفر کر کے دور دراز دیہاتوں میں پہنچ کر متاثرین سیلاب کو صبح و شام کھانا دے رہے ہیں۔ ایف آئی ایف کی جانب سے 15,000 سے زائدمتاثرہ خاندانوں میںخشک راشن تقسیم کیا جاچکا ہے۔ راشن پیک میں آٹا، چاول، گھی، چینی، دالیں اور دیگر اشیائے خورونوش شامل ہیں۔ 90,000سے زائد بچوں کو کھانے پینے کی اشیاء مثلاً ٹافیاں، جوس، دودھ اور دیگر اشیاء فراہم کی گئیں۔جماعة الدعوة کی طرف سے سیلاب متاثرین کیلئے ملتان میں خیمہ بستی بھی بنائی گئی ہے جبکہ مظفر گڑھ میں فیلڈ ہسپتال بھی کام کر رہا ہے۔
جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن بھی سیلاب متاثرین کی مدد میں مصروف ہے۔ سیلاب ایک قدرتی آفت ہے جس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ پچھلے چار پانچ سالوں سے پاکستان میں مسلسل سیلاب کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی قوم اللہ رب العزت کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ پاکستانی قوم سیلاب متاثرین کی بھی بھرپور انداز میں مدد کرے تاکہ انہیں کسی طور پر بھی یہ احساس نہ ہو کہ مشکل اور مصیبت کے ان لمحات میں تنہا رہ گئے ہیں۔