اصلی چہرہ

Karachi

Karachi

تحریر: احسان احمد گھمن

آج جب پتہ چلا کہ پڑوس میں ایک عورت نے اپنے بچے کا نام مافیا سلطان رکھ لیا ہے تو میں نے اُسے کہا کہ باجی بچے کانام بدل دو۔کہِنے لگی کہ میرے خاوند کا کام کاج کراچی میں ہے ہفتہ پہلے میں نے فون پر اپنے خاوند سے پوچھا کہ کہاں کام کرتے ہو؟تو اُس نے جواب دیا مافیا میں۔میں نے سوچاکیوں نہ اپنے بچے کا نام اُس کمپنی کے نام سے رکھ دوں جس میں میرا خاوند ملازمت کرتا ہے۔اور میرا بیٹا بڑا ہو کراُس کمپنی”مافیا”کا سلطان بنے گا۔ اِس طرح مجھے لفظ مافیا پر قلم اُٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی تا کہ معصوم لوگوں کو مافیا کا اصل چہرہ دکھایا جا سکے۔

کہتے ہیں کہ برائی کی طرف قدم تیزی سے اُٹھتے ہیں جبکہ نیکی اور سچائی کا راستہ بڑا دشوار گزار اور کٹھن ہوتا ہے۔حکومتوں کا یہ فرض ہے کہ برائی کا راستہ قانون اور انصاف کی قوتوں کوبروئے کار لا کر روکیں لیکن اگر حکومتیں خود برائی میں شریک ہو جائیںتو اُن لوگوں کے لیے راستہ صاف ہو جاتا ہے جِن کے اندر برائی کا عُنصر کالی بلی کی طرح گھات لگائے شکار پر جھپٹنے کے لیے تیار ہو ۔ اگر ایسے بہت سے مُردہ ضمیر لوگ گُروپوں کی شکل میں اکٹھے ہو جائیں تو پھر وہ اور بھی زیادہ خطرناک صورت اِختیار کر لیتے ہیں اور مافیا بن کر اُبھر آتے ہیں۔

قیامِ پاکستان سے پہلے لفظ مافیا بڑا نایاب تھا لیکن پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی اِس نے خوب ترقی کی ۔افسران و اہلکاران جن کا تعلق متروکہ جائیداد کے محکموں سے تھا سوائے چند ایک کے اُنہوں نے خوب لوٹا ۔اپنی من مانیاں کیں ،مہاجرین کے کلیم ہڑپ کیے،جسے جی چاہا خوب نوازا اور جس سے جی چاہا ہاتھ کھینچ لیا۔یہ لوگ بڑے بڑے کاروبار، بنگلوں، کوٹھیوں پلازوں، زمینوںاور مارکیٹوں کے مالک بن گئے۔جب دوسرے محکموں کے اہلکاروں نے دیکھا کہ اُن کے ساتھیوں کی تو لاٹریاں نکل آئی ہیں تو اُنہوں نے بھی رشوت ستانی اور لوٹ مار کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے تو درکنار نہانا شروع کر دیا۔

یہاں تک کہ کلرک اور چپڑاسی بھی کرپشن کی اِن منڈیوں میں ریٹ لگوانے لگے۔آخر ہوا کیاکہ کرپٹ سرکاری افسران کا مافیا وجود میں آگیا۔ان سرکاری افسران نے ایک طرف سیاستدانوں اور دوسری طرف صنعتکاروں سے اپنی رشتہ داریاں اور روابط قائم کر لیے۔وہ اس لیے تا کہ ان کے ہاتھ لمبے اور مضبوط ہو جائیں اور کوئی بھی اِنکی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کر سکے ۔اب جب سیاستدانوں نے اِن کے وارے نیارے دیکھے تو وہ بھی دولت کی دیوی کو حاصل کرنے کی غرض سے کرپشن کے سمندر میںکود پڑے ۔آغاز جاگیر داروں نے کیا کیونکہ اِن کے ووٹ بنک کا اہم حصہ اِن کے مزارعے تھے ۔

اِن اَن پڑھ اور سیاسی ُسوجھ بُوجھ سے عاری لوگوں کو جاگیر داروں نے سیاسی عمل میں بے دریغ اِستعمال کیا اور جو آج تک ہو رہے ہیں اِن کے ساتھ ساتھ دوسرے عوام کو بھی یہ سیاستدان اُلّو بناتے رہے اور سبز باغ دکھا کر جھوٹے وعدے کرتے رہے ۔سفارش اور اقربا پروری کو ہوا دی،نعروں کی سیاست ایجاد کی اِن سب کے اکٹھ جوڑ سے وی۔آی۔پی کلچر کی بنیاد پڑی اور کرپٹسیاستدانوں کا مافیا بن گیا ۔سیاست کے اِن علمبرداروں نے کریمینلز کی پشت پناہی شروع کر دی۔

Law

Law

اِن کے ڈیرے قاتلوں، ڈاکووں ،اغواکاروں اور چوروں کی پناہ گاہیں بن گئیں۔آئین و قانون اور ضابطوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور ملک میں جنگل کا قانون نظر آنے لگا ۔اِن کو راستہ دینے کے لیے عوام کو دس دس گھنٹے سڑکوں پر ذلیل ہونا پڑا۔ٹریفک رکنے سے اکثر مریضوں کی ایمبو لینسز میں اموات ہو گئیں اور کئی ماوں نے بر وقت ہسپتال نہ پہنچنے پر ایمبو لینسز میں اپنے بچوں کو جنم دیاپرسوں کی مثال لے لیں کراچی رحمان ملک اور رمیش جی کے اِنتظار میں فلائٹ اڑھائی گھنٹے لیٹ کر دی گئی ۔میں تو اِن مسافروں کی جرات ،خوداری اور زندہ ضمیری کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے ان وی۔

آی ۔پیز کو دھکے دے کر جہاز سے باہر نکال دیا۔صدقے اُن اہالیا نِ سکھر پر جنہوں نے ایک ریڑھی بان پر پولیس تشدد کے خلاف روڈ بلاک کر کے وزیر اعلی سندھ کے خلاف نعرے لگائے اور وزیر اعلی کو کسی دوسرے راستے پر جانے کے لیے مجبور کر دیا ۔اور وی۔آی ۔پی کلچر کی حوصلہ شکنی میں پہل کر دی ۔اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں اِن سیاست دانوں کے سائے تلے دوسرے کئی نامراد گروپس پروان چڑھے سمگلروں کے مافیا نے مُلکی سرحدوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیا۔مُلکی اجناس اور قیمتی اشیاء سرحدوں پار بھیجنا شروع کر دیں اور سرحد پار سے منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ کے ساتھ ساتھ برقی آلات،گاڑیوں اور بہت سی نایاب اشیاء سے پاکستان کی منڈیاں بھر دیں۔ اِن کے اِس غیر قانونی فعل سے نوجوان نسل منشیات کی عادی ہو گئی جس کی وجہ سے گھر وں کے گھر اُجڑ گئے۔ملکی صنعت اور ریونیو کا ستیا ناس ہو گیا ۔

کیوں! کچھ گروپس قبضہ مافیا کی شکل میں نمو دار ہوے۔اِن مافیا والوں نے حکومت اور لوگوں کے خالی پلاٹوں پرقبصہ کر کے پلازے، دوکانیں اور کوٹھیاں بنا لیں ۔عملے کی ملی بھگت سے جعلی دستاویزات بنا کر یہ جائیدادیں کڑوڑوں اربوں میں فروخت کیں اور اصل مالکان بیچارے عدالتوں اور دفاتر میں ذلیل و خوار ہونے ہونے لگے۔اس طرح فراڈیوں کے مافیا نے نئی نئی سکیمیں متعارف کرا کرلوگوں سے خوب لوٹ مار کی۔کبھی جعلی کمپنیاں بنا لیں ،کبھی فنانس کمپنیاں، کبھی گولڈن سکمیں اور کبھی کمیٹی سکمیں ۔بلڈنگ سوسائٹیوںکی مد میں معصوم لوگوں اربوں روپے کا فراڈ کیا لیکن کسی کو ایک پلاٹ تک نہ دیا ۔

رہی سہی کسر مولوی مافیا نے پوری کر دی ۔اِن مافیا والوں نے اِسلام کا لیبل لگا کر اندرون اور بیرون سے چندے اکٹھے کرنا شروع کر دیے اور لوٹ مار کی انتہا کر دی ۔دوسرا ان گرپوں نے یہ کیا کہ اپنے اپنے فرقے کو ہوا دی اور لوگوں کو آپس میں لڑوایا مروایا۔انہوں نے معصوم لوگوں کا برین واشنگ کر کے اپنے اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا۔ اس طرح ملک میں دہشت گردی کی پشت پناہی ہونے لگی اور ایک افرا تفری کی فضا قائم ہو گئی۔مولویوں کا یہ مضبوط مافیا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ کسی طرح بھی حکومت ان کے ہاتھ لگ جائے اب صورتِحال انتہائی تشویش ناک ہے کہ تمام طاقت ،اثر و رسوخ اور دولت اِن گروپوں کی گود میں ہے ۔ان مافیا والوں نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے ملک میں برائی کا ایک ایسا سرکل قائم ہو چکا ہے

جسے توڑنا قادری صاحب اورکپتان کے بس میں نظر نہیں آ رہا اگر کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ مافیا والے چور مچائے شور والا حساب بنا لیتے ہیں۔ حال ہی میں دیکھیں کہ ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے واے کس طرح پارلیمنٹ ہاوس میں اکٹھے ہو گئے اور ثابت کر دیا کہ ان کی طرف اُٹھنے والے ہاتھ توڑ دیے جائیں گے یعنی ”ایک چور اوپر سے سینہ زور” ۔ گھٹن ،بے سکونی اور عدم تحفظ کی فضا میں جب یہ مافیا والے آئین و قانون اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اِن پر ہنسی آتی ہے پتہ نہیں۔

Ehsan Ahmed Ghuman

Ehsan Ahmed Ghuman

تحریر: احسان احمد گھمن
ehsan.ghumman@yahoo.com
موبائل: 0300-4901711