آج کا مسلمان

Muslim

Muslim

تحریر: شفقت ا للہ خان سیال

میں اپنے آفس میں بیٹھا خبریں لکھنے میں مصروف تھا کہ میرا دوست آگیا اس کو ملنے کے اس کی خیریت دریافت کی، تو اس اس کی آہ نکلی اور بولا کہ یار یہ کیا دنیا ہے، کہ جس کو دیکھو وہ ہی لوٹ کھسوٹ کے چکروں میں ہے۔ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا رہی ہے اس لوٹ کھسوٹ کے چکر میں وہ اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ دار ہے اور گد بن کر اپنے مسلمان بھائیوں کو نوچ رہا ہے کیا ہمارے ضمیر اتنے مردہ ہو چکے ہیں کہ گدبن چکے ہیں کہ مردار بن کے اپنے مسلمان بھائیوں کا حق کھا رہے ہیں اوپر سے ہم کہتے ہیں کہ کہ ہم کلمہ گو مسلمان ہیں اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ماننے والے ہیں اور ہمارا دین اسلام ہے۔

اور ساتھ حرام کھانے والے گد بن کر اپنے بھائی ۔بہنوں ۔بزرگوں اور بچوں کا حق کھا رہے ہیں ہم صرف اب نام کے مسلمان رہ چکے ہیں آج پاکستان کا ہر سرکاری ادارہ چاہیے وہوفاقی ہے یا صوبائی وہاں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا ۔ہمارا ضلع جھنگ بہت پرانے اضلاع میں سے ایک ہے اس ضلع میں شیخوپورہ۔فیصل آباد۔ٹوبہ اور چنیوٹ وغیرہ کی تحصلیں ہواکرتی تھیں مگر ہمارے سیاسی لیڈروں کی مہربانیوں سے اس ضلع کے باربار ٹکڑے کئے گئے ۔اب یہ چار تحصلوں میں رہ گیا ہے تحصیل احمد پور سیال۔تحصیل اٹھارہ ہزاری۔تحصیل شورکوٹ ۔تحصیل جھنگ افسوس کے ہماری عوام آج بھی انہیں سیاسی لیڈروں کے ڈیروں اور ان کی کوٹھیوں پر بیٹھی نظر آتی ہے۔

جب الیکشن ہوں تو یہ لوگ عوام کے پاس آئیں تو کسی کو چچا۔بابا۔ماما۔اماں جی وغیرہ بڑے میٹھے انداز میں بولیں گے۔مگر جب ایم این اے یا ایم پی اے بن جائے تو آئندہ الیکشن تک سب رشتے بھول جاتے ہیں اور اگر ان کو ووٹر کسی جگہ مل بھی جائے جس کو دوران الکشن جس کو یہ چاچا۔ماما۔بابا ۔یا اماں جی بولتے ہیں ان کو پہچاننے سے انکاری ہو جائیں گے۔اور اگر پہچان بھی لیا تو اس غریب ووٹر کا کام کرنے کی بجائے ٹال مٹول کر جائیں گے۔ہمارے سیاسی لیڈر اگر درست فیصلے یا کام کرتے تو اس ضلع جھنگ کے ٹکڑے نہیں ہونے تھے۔

یہ ضلع لاوارث ہے ۔اس لیے اس ضلع کے بارے میں کسی نے بھی نہیں سوچا۔اگر کسی نے ایسا سوچا ہوتا تو یہ ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوتا اور آج یہ ڈویزن کا درجہ رکھتا۔۔۔وہ بولا تو میں بات کر رہا تھاکرپٹ لوگوں کی جن کی وجہ سے کرپشن دن بہ دن ترقی کررہی ہے ہمارے ضلع میں لاتعداد ترقیاتی سکیمیں آئیں اور کام ہوئے ۔مگرافسوس جس طرف بھی دیکھو ہر طرف مٹی اڑتی نظر آئے گئی آپ ٹی ایم اے جھنگ کے ہی کام لے لو ابھی ٹھیکیدار حضرات کام مکمل کرکے جاتے ہیں تو گلی ہو یا نالے وغیرہ وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

Mosque

Mosque

جو اب اس دفعہ ٹینڈر ہوئے ہیں ان سے جو پہلے ٹینڈر ہوئے ان کے کاموں کو اگر کوئی ایماندا ر افسر ان کی ٹیم چیک کرئے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔جیسا کہ جھنگ سٹی گلی رولوں والی ۔گلی حاجی گلزار والی ۔مسجد منشیا نوالی کی پچھلی گلی وغیرہ ایسی لا تعداد سکیمیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اگر کوئی ٹیم ان کے کام چیک کرنے آبھی جائے تو یہ افسران ٹی ایم اے وہ کام چیک کروائیں گے جو کہ دوسروں کی نسبت کچھ بہتر ہیں ساتھ ہی میرے پاس بیٹھا دوست بولا ۔کہ جس شخص نے تقریبا25%سے45%تک کام لینا ہے اور اس نے اپنے افسران کو بھی خوش رکھنا ہے اور کا م بھی مکمل کرنا ہے تو وہ کام کیسا ہو نگے ۔جو کہ آپ خود بھی اندازہ لگا سکتے ہو ۔کہ ٹھیکیدار کام کیسا کرتے ہو ئنگے۔اور ایسے کاموں نے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تو ہونا ہی ہے۔

آج جو اصل ٹھیکیدار ہیں ان کو کام نہیں ملتا ۔بس آج کل ایسے لوگ ٹھیکیدار ی کے کام میں آگئے ہیں کہ جن کو پتہ ہی نہیں کہ کام کیسے ہونا ہے یہ کام لے کر آگے پیٹی ٹھیکیدار کو کام دے دیتے ہیں۔افسران کے ساتھ تو پہلے کھری ہے کہ متعلقہ آفیسر برائے نام کام چیک کرنے جاتے ہیں بل تو وہ اوکے کر ہی دیتے ہیں افسوس۔۔۔ایک گلی بھی ٹھیک بنی ہو تو سالہا سال ٹوٹنے کا نام نہیں لیتی۔جبکہ یہ ٹھیکیدار (پی سی سی)ڈال کر جاتے ہیں تو کچھ دن بعد وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ ہیں ہم آج کے مسلمان۔

ٹی ایم اے جھنگ کی نقشہ برانچ کو ہی لے لو ۔شہر بھر میں لاتعداد ،مارکیٹیں ۔دوکانیں ۔پلازے۔مکان۔کوٹھیاں وغیرہ تعمیر ہوتی ہوئی یا جو مکمل ہو چکے ہیں نظر آئیں گئی۔لیکن نقشہ صرف چند ایک لوگوں کے بنے ہوئے ہیں میرا دوست بولا کہ میرے بھائی شیریں چوک اورمسجد اہلحدیث جھنگ سٹی کے درمیان شفیق سیلون کی عمارت تعمیر کی گئی اس کی تقریبا تین منزل بنائی گئی ہے۔اس کا نقشہ نہیں بنا ۔جس کی اطلاع ٹی ایم اے جھنگ کی برانچ کو دی ۔مگر وہ سیلون سے تو ہوکے آگئے مگر اب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔آدھیوال چوک جھنگ روڈ پر دوکانے وغیرہ تعمیر ہوئی۔

آدھیول سرگودھا روڈ پر دوکانے وغیرہ تعمیرہوئی اور شہر بھر میں لا تعداد دوکانیں اور مارکیٹں بنی یا تعمیر ہو رہی ہیں مگر افسوس۔۔۔کہ آج کے مسلمان کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔میرا دوست بولا کہ احکام بالا اپنی خصوصی ٹیم بنا کربھیجیں جس میں نیک اور ایماندار آفیسر ہوں جو کہ نقشہ برانچ اور تمام تر ترقیاتی کام جو کہ پچھلے ٹینڈروں میں ہوئے یا ان ٹینڈروں میں ہو رہے ہیں ان سب کاموں کی سکیمیں ایک ایک کر کے چیک کی جائے۔اور نقشوں کے لیے تمام شہر کا وزٹ کریں ۔کہ شہر میں پلازے ۔مارکیٹیں ۔دوکانے۔ مکان۔کوٹھیاں وغیرہ کتنی ہے اور نقشے کتنے لوگوں کے پاس کیے گئے ہے۔ تو دود ھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور ساتھ ہی وہ بو لا کہ بھائی اللہ کے نیک بندے آئیں جو میرے شہر کا کچھ تو بھلا کر جائے۔

Shafqat Ullah Sial

Shafqat Ullah Sial

تحریر: شفقت ا للہ خان سیال