رائج سسٹم پر عوام کا عدم اعتماد ذمہ دار کون؟

Load Shedding

Load Shedding

تحریر: سید احمد علی رضا

بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کیخلاف ملک بھر میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باوجود انکے نرخوں میں اضافے پر بھی صارفین سراپا احتجاج ہیں اوپر سے صارفین کو استعمال سے کئی گنا زائد کے بل بھجوا دیئے گئے جس پر کابینہ کے اجلاس میں وزراپھٹ پڑے اور وزیراعظم نے کمیٹی بنا کر معاملہ لٹکا دیا۔ مہنگائی کے طوفان نے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ 10 لاکھ آئی ڈی پیز اور ان سے دگنا سیلاب متاثرین کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر روز آبروریزی کی درجنوں وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں ،انصاف نہ ملنے پر خواتین خودسوزی کرلیتی ہیں۔ بھوک سے اجتماعی خودکشیاں ہوتی ہیں، لوگ پیٹ کی بھوک مٹانے کیلئے اپنے بچوں کو فروخت کرتے بھی دیکھے گئے ہیں۔

میرٹ کا جنازہ جمہوریت اور آمریت کے ادوار میں یکساں نکالا گیا اور آج بھی اس حوالے سے کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ گورنر پنجاب چودھری سرورکا کہنا ہے کہ کرپشن پہلے کی طرح ہو رہی ہے وزرابھی اس بداعمالی میں شریک ہیں۔ ہماری کارکردگی صفر رہی۔ صارفین کو موسم سرما میں گیس کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ایسی تشویشناک اور مایوس کن خبریں روزانہ پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ جدید اور جمہوری دور میں عوام کو ایسے مسائل کا سامنا یقینا پریشان کن ہے۔ ان حالات تک عوام کو جس نے بھی پہنچایا ان سے عوام کو نجات دلانا اپنی اپنی حیثیت کے مطابق سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے جو اس سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں ان میں چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں یا وہ دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔

قارئین۔۔۔ آج کا کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں سیاست دانوں اور دانشوروں کے بیانات سے بھرے پڑے ہیں ان میں سب کچھ ہے ایک دوسرے کا مذاق اڑایا گیا ہے الزامات کی بوچھاڑ کی گئی ہے جوابی الزامات بھی موجود ہیںاگر ان میں کچھ نہیں ہے تو عوامی مسائل اور انکے حل کی بات نہیں ہے۔ کسی دانشور نے اخبارات کو سیاست دانوں کا اگالدان کہا تھا الیکٹرانک میڈیا کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ آج مخصوص الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا واقعی اگالدان نظر آرہا ہے۔

وزیراعظم میاں نوازشریف کہتے ہیں خان صاحب اور انکی جماعت کو پتہ نہیں ترقی کرتی معیشت اور سیاسی استحکام سے کیوں دشمنی ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ کراچی میں جلسہ تحریک انصاف اور متحدہ کا مک مکا تھا۔ عمران خان نے کراچی میں جلسہ سے خطاب میں کہا بھٹو کے نام پر جھوٹ بول کر سندھیوں سے ووٹ لئے جاتے ہیں، سعودی عرب امریکہ اور گلوبٹ بھی نوازشریف کو نہیں بچا سکتے۔ بلاول بھٹو یوںگویا ہوئے، اسٹیبلشمنٹ کے ٹیسٹ ٹیوب سیاست دان کسی صورت برداشت نہیں۔ 18اکتوبر کو مخالفین کو جواب دینگے۔ طاہرالقادری نے نوید سنائی کہ انقلاب آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ جماعت اسلامی تحریک پاکستان میں پرجوش طریقے سے عدم شمولیت کا شاید کفارہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

جاوید ہاشمی نے سنی سنائی اڑا کر سیاست میں مزید ہلچل پیدا کردی کہ لندن میں عمران طاہرالقادری ملاقات میں گورنر سرور چودھری موجود تھے۔ چودھری سرور نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ ان بیانات کو ایک بار پڑھیں یا بار بار پڑھیں عام آدمی کی بھلائی رہنمائی اور انکے مسائل کے حل کا ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے۔

قارئین۔۔۔ جاوید ہاشمی اپنی بیباکی کے باعث اچھی شہرت رکھتے ہیں، انہوں نے آمریت کے گملے میں پرورش پائی ،تاہم پختہ کار ہو کر جمہوریت کے نگہبان ٹھہرے ،وہ بھی الزاماتی سیاست اپنائے ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نوجوانوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن وہ بھی الزامات اور جوابی الزامات کی دلدل میں پھنس گئے ۔ میاں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے انکے اقتدار کا پیمانہ دو اڑھائی سال ہی میں چھلک جاتا ہے۔

Imran Khan

Imran Khan

اب سوا سال میں ہی وہ پریشان اور انکی حکومت سٹیک پر لگی نظر آرہی ہے۔ عمران خان نوجوان نسل کے آئیڈیل ٹھہرے وہ جمہوریت کے استحکام کے بجائے اسکی کمزوری کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمارے سیاست دان چاہے وہ حکومت میں ہیں، اپوزیشن میں یا دھرنے والے ہیں سب عوام اور انکے مسائل سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ میٹرو اپنی جگہ ایک بہتر منصوبہ ہے مگر عوامی مسائل کا حل میٹرو اور موٹروے سے کچھ آگے کا متقاضی ہے۔ میاں نوازشریف بھاری مینڈیٹ کی حامل حکومت کے قائد ہیں۔ اقتدار اور اختیارات انکے ہاتھ میں ہیں، نجانے کیوں وہ عوام کو مطمئن کرنے سے قاصر ہیں جبکہ انکی حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔صرف نوازشریف اور انکی حکومت ہی پر موقوف نہیں قوم تمام سیاست دانوں سے یکساں طور پر مایوس نظر آتی ہے۔

مشرف کی نیم جمہوری حکومت کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)مکمل جمہوری حکومتیں تھیں ،عوام آمریت میں مطمئن تھے نہ نیم جمہوری اور بعدازاں مکمل جمہوری حکومتوں کی کارکردگی سے۔ ان کیلئے نیا دن گزرے دن سے زیادہ برا ثابت ہوا۔ دن بدن عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، ان کا جمہوریت پر سے اعتماد بداعتمادی میں بدل رہا ہے۔ جاوید ہاشمی نے تو کسی اور تناظر میں کہا کہ شاہ محمود قریشی عمران کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں البتہ سیاست دانوں نے عوام کی مایوسیاں ختم نہ کیں تو بدترین مسائل میں گھرے لوگوں کا ہاتھ ان کو اس حال تک پہنچانے والوں کے گریبان تک پہنچ سکتا ہے۔

آج سیاست دان اپنے اپنے مفادات کیلئے کارکنوں کو اپنے حریفوں کیخلاف بھڑکا رہے ہیں ،یہ معاملہ ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچنے تک جا سکتا ہے جس سے سیاسی ایلیٹ بھی محفوظ نہیں رہ سکے گی۔اسلام آبادمیں لوگ لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج کررہے تھے تحریک انصاف کے دو ایم این ایز کو عوام میں موجود ہونا چاہیے تھا لیکن وہ کنٹینر پر نعرے لگا رہے تھے۔ لگتا ہے کہ آج پاکستان کی کسی کو فکر نہیں ایسے میں جنرل اسلم لیگ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جن کے بقول واشنگٹن کینیڈا برطانیہ اور ایران نے مل کر پاکستان میں انتشار پھیلایا۔

جنرل اسلم بیگ ایک پیشہ ور سپہ سالار کی حیثیت سے اچھی شہرت رکھتے ہیں جنہوں نے مواقع موجود ہونے کے باوجود اپنے پیشرو جنرل ضیاالحق کے نقش قدم پر چلنے سے گریز کیا اور جمہوریت کو راستہ دیا جس پر بے نظیر بھٹو نے انہیں تمغہ جمہوریت سے بھی نوازا۔ آج کی جمہوریت کی صورت میں قوم اور سیاست دان جنرل (ر)سلم بیگ کے لگائے گئے جمہوریت کے پودے کا ہی میٹھا پھل کھا رہے ہیں اور جنرل بیگ بھی اسی تناظر میں جمہوریت کیخلاف سازشوں پر فکرمند ہوتے ہیں، چنانچہ جمہوریت کیخلاف انکی انکشاف کردہ سازش کو بیگ صاحب جیسی دانش رکھنے والا ہی کوئی شخص سمجھ سکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کو رواں دواں رکھنا ہے تو آئین کی روح کے مطابق اداروں کو اپنے اپنے دائروں میں رہنا ہو گا۔

ہمارے ہاں جمہوریت کچھ اداروں کی طرف سے خود کو طاقتور باور کرانے کے باعث مستحکم نہیں ہو سکی۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ سیاست دانوں نے کبھی ڈلیورنہیں کیا۔ وہ عوام کے اعتماد پر پورا نہیں اتر سکے۔ جمہوریت عوام کے اعتماد پر پورا اترے بغیر مضبوط تو کیا ہوگی چل بھی نہیں سکتی۔ سیاست دان خود پر عوام کا اعتماد بحال نہ کر سکے تو طالع آزمائوں کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ طالع آزماسے مراد جنرل راحیل شریف ہی نہیں یہ کسی اور طرف سے بھی سامنے آسکتے ہیں۔ عمران خان اور قادری بھی تو طالع آزمائی کر رہے ہیں، کل ان جیسا کوئی اور گروہ بھی اٹھ سکتا ہے جس کو عوام ویلکم کہہ سکتے ہیں۔
شاطروں کی شہہ پر خود اپنے خلاف
کس قدر فعال ہوجاتے ہیں ہم
کوئی استعمال کرتا ہے ہمیں
اور استعمال ہوجاتے ہیں ہم

Syed Ahmad Ali Raza

Syed Ahmad Ali Raza

تحریر: سید احمد علی رضا