تحریر : امتیاز علی شاکر ماں جی اکثر فرمایا کرتیں امتیاز بیٹا اللہ والوں کی محفل اختیار کیا کرو، بن مرشد منزل نہیں ملتی، مرشد دے لڑ لگ جائو زندگی بن جائے گی۔ مرشد خانوں کی طرف دیکھتا تو بہت دور نظر آتے، عقیدت مندوں کے ہجوم میں گم پیر صاحب کی ایک جھلک بھی مقدر والوں کو نصیب ہوتی۔ دور سے پیر صاحب کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کیلئے غریب مریدین کو کئی مشکل ترین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ وزیر، مشیر اور سفیر پچھلے دروازے سے سیکورٹی گارڈ سمیت داخل ہوجاتے ہیں پیر صاحب امیروں کو گلے لگاکر اپنے برابر سٹیج پر بیٹھاتے ہیں تو دوسری جانب پرانے مریدین نئے بیعت ہونے والوں میں نام لکھوا کر ملاقات کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسے حالات دیکھ کراپنے تو طوطے اُڑ جاتے ہیں۔ جس پیر کی محفل میں بیٹھنے کا موقع نہ ملے اُس سے رہنمائی کیسے حاصل ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے”اور تمھارے پروردگارکا ارشاد ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں توان کواُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا اور عجزونیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پرودگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا تو بھی ان پر رحمت فرما (سورئہ بنی اسرائیل) اللہ والوں کی محفل اختیار کرنے کیلئے ماں جی کا حکم تھا اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ والدین کی فرمابرداری کرو۔ ماں جی کا حکم مانا بھی فرض ہے اور ایسے پیرصاحب جو غریب کو گلے لگائیں ، پاس بیٹھا کر تربیت کریں۔ ایسی پہچان اور تلاش کرنا میرے جیسے کاہل اور سست شخص کیلئے ناممکن سا معاملہ تھا۔
تھکے ہاروں اور بے سہاروں کو ایک ہی بارگاہ سے ہمیشہ مدد ملتی ہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا معاملہ پیش کر دیا دل میں پلنے والے تمام وسوسے جو میرا رب رحمان پہلے ہی جانتا ہے۔ سارے ہاتھ اُٹھاکر سنا دیئے۔ بارگاہ الٰہی میں درخواست پیش کردی کہ یارب مجھے مرد حق ، مرد کامل کی صحبت عطا فرماجو میرے اندر کے اندھیروں کو روشنیوں میں بدل دے۔ ایسا مرشد کامل عطافرماجو تیری بارگاہ میں مقبول اور آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو۔ اس طلب میںکئی پیرخانوں تک کا سفر بھی کیا ، کئی مرتبہ دل میں خیال آیا کہ بیعت ہو جائوں پر ہر مرتبہ کوئی انجانی طاقت روک لیا کرتی تھی۔ میرے پاس نہ کوئی ایسا عمل ہے نہ علم جو مردکامل کی پہچان کرنے میں مدد کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے عرضی قبول کرلی اور راستے خودبخود نکلنے لگے۔کچھ عرصہ قبل ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر بہت سے اہل علم لوگوں سے سمجھنے کی کوشش کی پر کوئی کچھ نہ سمجھا سکا۔خواب کی کیفیت کچھ ایسی تھی جیسے جاگتے میں دیکھا ہو۔ کئی ماہ تک اس خواب نے مجھے بے چین و بے قرارکئے رکھا اُسی دوران والدہ محترمہ کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی مختلف ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے علاج کروانے کے باجود آرام نہیں آرہا تھا۔
ماں جی اکثر کہا کرتیں کہ اُن کے پھیپھڑے ختم ہو چکے ہیں تو میں پریشان ہو کر اُن سے عرض کرتا کہ ماں جی ایسے نہ کہاکریں۔ آپ کوئی ڈاکٹر ہیں مجھے اُس وقت شدید جھٹکا لگا جب مجھے میرے با اعتماد دوست ڈاکٹر محمد اکرام نے ماں جی کا ایکسرے دیکھ کر بتایا کہ اُن کا دائیں طرف کا پھیپھڑا بہت حد تک خراب ہو چکا ہے جس کا علاج بہت مشکل ہے مجھے لگا کہ ا س دنیا کے ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں ماں جی کی صحت و زندگی کیلئے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا ء کرنا پڑے گی۔ رب رحمان نے صدقہ آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے بندے کی دُعا قبول فرمائی۔ انہیں دنوں ڈاکٹرمحمد رضا ایڈووکیٹ جومیرے بچپن کے محسن اور شفیق دوست ہیں ۔ اُن کا پاکستان کے قومی اخبار روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والامضمون پیر سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست پڑھ کر آپ کی روحانی شخصیت کے متعلق جاننے کا موقع ملا۔ جس کے بعد آپ سے ملنے کی جستجو ہونے لگی ۔ کوئی انجانی طاقت مجھے آپ کی طرف کھینچ رہی تھی۔ ایک دن مجھے پیر سید مجاہد حسین گولڑوی نے فون کرکے بتایا کہ آج پیر سید عرفان احمد شاہ آستانہ اُویسہ قصور پر تشریف لائیں گے۔ میں نے اُن کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی تجزیہ نگار وں والی عادت سے مجبوردل و دماغ میں بہت سے سوالات لئے صبح دس بجے کے قریب ہم آستانہ اُویسیہ قصور پہنچ گئے آپ پہلے سے وہاںموجود تھے۔ آپ بڑی محبت وشفقت سے ملے یوں لگا جیسے میں اُن کو پہلے سے جانتا ہوں۔ آپ کے روحانی چہرے کوتکتے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا شام ہونے پر وقت ملاقات بھی ختم ہو گیا۔
Worship
سارے سوالات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پہلی ملاقات میں معلوم ہوا کہ آپ سیگریٹ نوشی کو سخت ناپسند فرماتے، نماز کی پابندی اور والدین سے محبت کا درس دیتے ہیں۔ حیران کن طور پر میری سالوں پرانی سیگریٹ نوشی کی شدید عادت کچھ عرصہ پہلے ہی چھوٹ چکی تھی ۔ کوئی ایک ہفتے بعد دوبارہ آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو راقم نے اپنا وہ خواب آپ کو سنا یا جس کا درج بالا ذکر کرچکاہوں۔ اپنے بستر پر لیٹا فجر کی اذان سن کر سوچ رہا ہوں کہ نماز پڑھنے کیلئے اُٹھنا چاہئے اتنے میں ادکھلی نیند نے پھر سے پوری طرح اپنی آغوش میں لے لیا (خواب) کیا دیکھتا ہوں کہ” نماز فجرکیلئے مسجد کی طرف جارہا ہوں مسجد کے سامنے سے گزر کر پاس موجود جنازگاہ پہنچ جاتا جہاں پہلے بھی کافی لوگ موجود ہیں ، وضو کرنے کیلئے پانی کی ٹوٹیوں پر جا بیٹھتا ہوں ، میرے سامنے کچھ لوگ وضو کرر ہے تھے جو اُسی وقت وہیں نماز پڑھنے لگے، میں سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ وضوکی ٹوٹیوں پر کیوں نماز پڑھنے لگ گئے ہیں یہاں تو سجدہ کرنے کی جگہ ہی نہیں ہے میں نے اُن کی طرف غور سے دیکھاتو اُن کے ہاتھ پائوں لمبے لمبے، رنگت انتہائی کالی اور نین نقش مٹے ہوئے تھے انہیں دیکھ کر خوف سا طاری ہونے لگا اتنے میں سفید کپڑوں میں ملبوس ایک پُروقار شخصیت مسکراتے ہوئے میرے سامنے آبیٹھی ٹوٹی کا پانی اُس کے گھٹنے پر گر رہا تھا اور وہ میری طرف دیکھ کر لگا تار مسکرا رہے تھے۔
حیران کردینے والی بات یہ رہی کہ پانی اُن کے کپڑوں کو گیلا نہیں کر رہا تھا۔ اُسی وقت ٹوٹیوں میں پانی آنا بند ہو گیا لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے ، نماز کا وقت ہے اور پانی ختم ہو گیا ہے، وضوکیسے کریں کسی نے آواز دی کہ وہاں سامنے نلکا ہے چلو وہاں سے وضو کر آتے ہیں ، ہم اُس طرف چل دیئے کچھ دور جا کر ایسا لگا جیسے کوئی پہاڑ نما چیز ہمارے راستے میں حائل ہو گئی ہو پھر نجانے کس طرح ہم نلکے تک پہنچ گئے جہاں سے وضوکر کے نماز کیلئے واپس مسجد کی طرف لوٹ آئے لیکن نماز پڑھنے سے پہلے ہی خواب ٹوٹ گیا ”میراخواب سن کر پیر و مرشد سید عرفان احمد شاہ سرکار نے فرمایا بیٹا یہ خواب نہیں وقت گزرنے کے ساتھ یہ سارا معاملہ تمہاری سمجھ میں آجائے گا۔ اُس دن میں نے شاہ صاحب سے ماں جی کی صحت کے بارے میں بھی بات کی اور اُن کیلئے دُعاکی درخواست کی۔
آپ نے فون پر ہی ماں جی کو دم کر دیا اور مجھے حکم فرمایاکہ ماں جی کو دیسی مرغی کا انڈہ حاف بوائل کرکے کھلائیں۔ اللہ تعالیٰ خیرکرے گا۔ میں نے آپ کو بتایا کہ ماںجی کا بلڈپریشر ہائی ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر انڈہ کھانے سے منع کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا انڈہ ضرور کھلائیں کچھ نہیں ہو گا ایسا ہی ہوااب ماں جی کی تما م ادویات چھوٹ چکی ہیں اور اُن کی صحت بھی بہت بہتر رہتی ہے۔ ایک ضروری بات آپ کو بتاتا چلوں کہ آپ فون پر ہی دنیاکے مختلف ملکوں میں بیٹھے لوگوں کو دم کردیتے ہیں اور اُن کو مختلف تکالیف سے آرام آجاتا ہے۔آپ کے فرمان کے مطابق اب مجھے خواب والے معاملات بھی سمجھ آنا شروع ہوگئے ہیں۔ جو لوگ وضو کی ٹوٹیوں پر نماز پڑھ رہے تھے وہ زندہ نہیں مردہ تھے یعنی میں مردوںکی جماعت دیکھ رہا تھا اور جس شخصیت نے میرے سامنے بیٹھ کر میرا دھیان اپنی خوبصورت اور بارونق مسکراہٹ پر لگا کر مجھے وہاں سے نکالا وہ کوئی اور نہیں میرے پیرومرشد سید عرفان احمد شاہ ہی تھے کیونکہ خواب سے پہلے میں نے اُنہیں کبھی دیکھا نہ تھا اس لئے پہچان نہ سکا۔ یہ سارا واقعہ آپ کوسنانے کامقصد یہ بتانا ہے کہ راقم کا باطن مردہ ہو چکا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست زندہ کر دیا۔ اللہ نے عطا میری طلب سے سوا کردیا مردہ تھا مرشد کی جھلک سے زندہ کردیا
مردوں کی جماعت سے نکالنے کے بعد میری سیگریٹ نوشی کی عادت چھڑوائی گئی پھر کہیں جاکہ آپ کی زیارت نصیب ہوئی۔ ایک دن سیگریٹ نوشی کے متعلق بات چلی تو ایک دوست نے بتایا کہ وہ پہلے سیگریٹ پیا کرتا پر جب سے شاہ صاحب نے منع کردیا تب سے سیگریٹ پینا چھوڑ دیا۔ اُس کی یہ بات سن کر میں چونک گیا اور فورا آپ کی خدمت میں سوال پیش کردیا کہ مجھے تو آپ نے منع بھی نہیں کیا پھرکیسے سیگریٹ نوشی کی عادت چھوٹ گئی؟آپ نے مسکراتے ہوئے آہستہ سے فرمایا منع کیا تھا۔میں سمجھ گیا کہ میری تربیت خاموشی سے جاری ہے بس اُس دن سے میری کوشش ہوتی ہے کہ سوال کم سے کم کروں ۔ ماں جی کی دُعائوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے کامل مرشد نصیب ہوئے جن سے ملنا انتہائی آسان ہے۔ پیرومرشد امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں کرتے سب کو گلے لگاتے ہیں۔ آپ ماں باپ سے محبت ،شفقت،اُن کا احترام ،خدمت ، فرمابرادی، اُن کے ہاتھ پائوں چومنے اور نماز کی پابندی کا درس دیتے ہیں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اس دور میں پیر سید عرفان احمد شاہ جیسے لوگ نا ہونے کے برابر ہیں جبکہ راقم کا ایمان ہے دور کوئی بھی آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کی رہنمائی فرمایا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے اور ہمیں اُن کی پہچان ،عزت واحترام کرنا نصیب فرما کے ہمارے ماں باپ،بہن بھائیوں اور اُولاد کیلئے ذریعہ نجات بنائے۔ (آمین)